سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
11. باب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ
11. باب: نماز عشاء کے وقت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Time For The Last Isha Prayer
حدیث نمبر: 165
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن بشير بن ثابت، عن حبيب بن سالم، عن النعمان بن بشير، قال: انا اعلم الناس بوقت هذه الصلاة، " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليها لسقوط القمر لثالثة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ هَذِهِ الصَّلَاةِ، " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ ".
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اس نماز عشاء کے وقت کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: حدیث جبرائیل میں یہ بات آ چکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، رہی یہ بات کہ اس کا آخری وقت کیا ہے تو صحیح اور صریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجر تک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کا ذکر ہے اس سے مراد اس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاند ڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عموماً اسی وقت نماز عشاء پڑھتے تھے، لیکن مشقت کے پیش نظر امت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔ (دیکھئیے اگلی حدیث رقم ۱۶۷)

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 7 (419)، سنن النسائی/المواقیت 19 (529)، (تحفة الأشراف: 11614)، مسند احمد (4/270، 274) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (613)، صحيح أبي داود (445)

   سنن النسائى الصغرى529نعمان بن بشيريصليها لسقوط القمر لثالثة
   سنن النسائى الصغرى530نعمان بن بشيريصليها لسقوط القمر لثالثة
   جامع الترمذي165نعمان بن بشيريصليها لسقوط القمر لثالثة
   سنن أبي داود419نعمان بن بشيريصليها لسقوط القمر لثالثة

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 165 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 165  
اردو حاشہ:
1؎:
حدیث جبرائیل میں یہ بات آچکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے،
یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں،
رہی یہ بات کہ اس کا آخری وقت کیا ہے تو صحیح اورصریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجرتک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کا ذکر ہے اس سے مراد اس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاند ڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے،
اسی لیے رسول اللہ ﷺ عموماً اسی وقت نمازِ عشاء پڑھتے تھے،
لیکن مشقت کے پیش نظر امت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔
(دیکھئے اگلی حدیث رقم 167)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 165   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 419  
´عشاء کے وقت کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ اس نماز یعنی عشاء کے وقت کو جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز تیسری رات کا چاند ڈوب جانے کے وقت پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 419]
419۔ اردو حاشیہ:
➊ نعمت علم کے اظہار کے لیے بعض اوقات یہ انداز اختیار کرنا مباح ہے کہ میں سب سے بڑھ کرجانتا ہوں اور یہ اسلوب سامعین کے لیے مؤثر بھی ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ حضرت نعمان نے یہ بات ان دنوں میں کہی ہو جب صحابہ کی غالب تعداد موجود نہ رہی ہو۔
➋ تیسری رات کے چاند ڈوبنے کا وقت قطعی طو ر پر منضبط نہیں ہے۔ یہ غروب آفتاب کے بعد تقریبا سوا دو گھٹنے سے لے کر ڈھائی تین گھنٹے تک ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 419   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 530  
´شفق کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں اس نماز یعنی عشاء کا وقت لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 530]
530 ۔ اردو حاشیہ:
➊تیسری رات کا چاند تقریباً اڑھائی گھنٹے کے بعد غروب ہوتا ہے۔
➋ان احادیث کی شفق سے کوئی مناسبت نظر نہیں آتی کیونکہ شفق تو تیسری رات کے چاند سے بہت قبل غروب ہو جاتی ہے۔ اصل میں یہ اشارہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کے اس موقف کی طرف ہے کہ شفق سے سفیدی مراد ہے نہ کہ سرخی جیسا کہ ان کی اس تبویب «ذکر ما یستدل به علی أن الشفق البیاض» [السنن الکبریٰ للنسائي: 1؍472]
سے ظاہر ہوتا ہے۔ مگر سفیدی بھی اس سے بہت پہلے ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا اس سے امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال غیرواضح ہے۔ واللہ اعلم۔ صحیح بات یہ ہے کہ شفق سے مراد سورج غروب ہونے کے بعد افق پر ظاہر ہونے والی سرخی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائي: 7؍57۔ 60]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 530   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.