● صحيح البخاري | 5506 | رافع بن خديج | كل ما أنهر الدم إلا السن والظفر |
● صحيح البخاري | 5543 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكلوه ما لم يكن سن ولا ظفر وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة أصابوا من الغنائم والنبي في آخر الناس فنصبوا قدورا فأمر بها فأكفئت قسم بينهم وعدل بعيرا بعشر شياه لهذه البهائم أوابد كأوابد الوحش فما فعل منها هذا ف |
● صحيح البخاري | 5509 | رافع بن خديج | أعجل ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وسأحدثك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فافعلوا |
● صحيح البخاري | 5503 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس الظفر والسن أما الظفر فمدى الحبشة وأما السن فعظم لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فما غلبكم منها فاصنعوا به هكذا |
● صحيح البخاري | 2507 | رافع بن خديج | أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوا ليس السن والظفر وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة |
● صحيح البخاري | 5498 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل ليس السن والظفر وسأخبركم عنه أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة |
● صحيح مسلم | 5092 | رافع بن خديج | أعجل ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وسأحدثك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فاصنعوا به هكذا |
● جامع الترمذي | 1491 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوه ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة |
● سنن أبي داود | 2821 | رافع بن خديج | أرن ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوا ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة تعجلوا فأصابوا من الغنائم ورسول الله في آخر الناس فنصبوا قدورا فمر رسول الله بالقدور فأمر بها فأكفئت قسم بينهم فعدل بعيرا بعشر شياه لهذه ا |
● سنن النسائى الصغرى | 4409 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكلوا ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة |
● سنن النسائى الصغرى | 4408 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل إلا بسن أو ظفر |
● سنن ابن ماجه | 3178 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل غير السن والظفر فإن السن عظم والظفر مدى الحبشة |
● بلوغ المرام | 1155 | رافع بن خديج | ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل ليس السن والظفر أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة |
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1491
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں تلوار،
چھری،
تیز پتھر،
لکڑی،
شیشہ،
سرکنڈا،
بانس اور تانبے یا لوہے کی بنی ہوئی چیزیں شامل ہیں۔
2؎:
اس جملہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ اللہ کے رسول کا قول ہے یاراوی حدیث رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا ہے۔
3؎:
ناخن کے ساتھ ذبح کرنے میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے،
نیز یہ ذبح کی صفت میں نہیں آتا،
دانت وناخن خواہ انسان کا ہو یا کسی اور جانور کا الگ اور جدا ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہو،
ان سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1491
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5506
´جانور کو دانت، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کیا جائے`
«. . . عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ . . .»
”. . . رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھاؤ یعنی (ایسے جانور کو جسے ایسی دھاردار چیز سے ذبح کیا گیا ہو) جو خون بہا دے۔ سوا دانت اور ناخن کے (یعنی ان سے ذبح کرنا درست نہیں ہے)۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5506]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5506 کا باب: «بَابُ لاَ يُذَكَّى بِالسِّنِّ وَالْعَظْمِ وَالظُّفُرِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دانت، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں دانت اور ناخن کا ذکر ہے مگر ہڈی کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا باب سے حدیث کا مکمل طور پر مناسبت ہونا ثابت نہیں ہو رہا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«والبخاري فى هذا ماش على عادتة فى الإشارة إلى ما يتضمنه أصل الحديث فان فيه ”أما السن فعظم“ وان كانت هذه الجملة لم تذكرهنا لكنها ثابته مشهورة فى نفس الحديث .» [فتح الباري لابن حجر: 540/90]
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں بھی اپنی عادت کے مطابق اصل حدیث کے متقضی کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ ”دانت ہڈی ہے“ اگرچہ یہ جملہ یہاں پر مذکور نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارے کے ذریعے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو نص حدیث میں ثابت اور مشہور ہے۔“
عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ذكر البخاري فى الباب حديث رافع وفيه ذكر السن والظفر، وليس فيه ذكر العظم، لكن مشي البخاري على عادته فى الاشارة الى ما يتضمنه اصل الحديث .» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 306/4]
علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ترجم بالعظم ولم يذكره فى الحديث، ولكن حكمه يعلم منه، لأن المذكور فى الحديث، أعني: السن والظفر أيضا من العظم .»
”امام کرمانی رحمہ اللہ کی توجیہ کے مطابق بھی دوسری حدیث میں واضح لفظ ہیں کہ:
«اعنيى السن والظفر أيضاً من العظم .»
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کے علاوہ سابقہ روایت میں زیادتی ہے کہ «أما السن فعظم» (دانت ہڈی ہے) پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ [ارشاد الساري: 439/9]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 137
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5509
5590
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے اس کے دو اجزاء ہیں، پہلے جزء سے مناسبت بالکل واضح ہے،“”یشمل الخمر“”لیکن دوسرے جزء“”وسمیہ بغیر اسمہ“”سے مناسبت ظاہر نہیں ہونی چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
“”وقد ورد فی غیر ہذا الطریق التصریح بمقتضی الترجمۃ، لکن لم یوافق شرطہ فاقتنع بما فی الروایۃ التی ساقہا من الاشارۃ۔“”
“”یقیناً بعض دیگر طرق میں تصریح کے ساتھ مقتضائے ترجمہ کے مطابق الفاظ واقع ہیں، لیکن وہ آپ کی شرط پر نہیں ہیں، اسی لیے اس روایت کی طرف اشارہ فرما دیا۔
ابن ابی عاصم نے ایک اور واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے تخریج کیا ہے کہ ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ صبح کے موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملنے گئے وہ آپ سے شام اور اس کی سردی کی بابت پوچھنے لگیں، انہوں نے اثنائے گفتگو بتلایا کہ اہل شام طلاء نامی شراب پیتے ہیں اس پر ام المونین رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب کا کوئی اور نام دے کر اسے پیا کریں گے، اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی نکالا“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق روایت باب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے اس مضمون کی دیگر احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جسے ابن ماجہ، ابن ابی عاصم اور نسائی میں روایت کیا گیا ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
“”الترجمۃ مطابقۃ للحدیث الا فی قولہ“”وسمیہ بغیر اسمہ فکأنہ قنع بالاستدلال لہ بقولہ فی الحدیث:“”من امتی“”لأن من کان من الأمۃ المحمدیۃ یبعد أن یستحل الخمر بغیر تأویل۔“”
“”ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت ظاہر ہے، سوائے،“”وسمیہ بغیر اسمہ“ کے گویا امام بخاری رحمہ اللہ حدیث کے الفاظ“”من أمتی“”کے مدنظر اس کے لیے استدلال پر قانع ہوئے، کیوں کہ امت محمدیہ کا فرد ہو کر مکن نہیں کہ بغیر تاویل کے شراب کو حلال جانے۔“
امام ابن المنیر رحمہ اللہ نے مطابقت کو ایک دوسرے طریقے سے ثابت فرمایا آپ کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں اپنے امتیوں کا نام لیا ہے، اب لازمی سی بات ہے کہ امتی بھی ہو اور وہ حرام کو کس طرح حلال کرے گا؟ تو لازمی ہے کہ وہ اس شراب کا نام بدل دیں گے اور دوسرا نام رکھ کر اسے حلال گردانیں گے، یعنی حدیث کے متن میں بھی ترجمۃ الباب سے مناسبت قائم ہوتی ہے بشرطیکہ غور تدبر کیا جائے۔
بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“”وہو المطابق الأول الترجمۃ۔ وأما باقی الترجمۃ فترک موضع الدلالۃ منہ، وہو قولہ فی غیر ہذہ الطریقۃ:“”یسمونہا بغیر اسمہا“”أما الاکتفاء بالمذکور لدلالتہ على بقیۃ الأحادیث، أو أن تلک الزیادۃ لم تثبت على شرطہ۔“”
“”ترجمۃ الباب کے اول سے مطابقت ظاہر ہے اور جو باقی دوسرا (جزء) ہے تو اسے چھوڑ دیا اور وہ دوسرے طریق سے ثابت ہے جو اس کے علاوہ ہے“”یسمونہا بغیر اسمہا“”اسی الفاظ پر اکتفا فرمایا اور زیادتی کو نقل نہیں کیا، کیوں کہ وہ آپ کی شرط پر نہیں تھی۔“”
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
“”ومطابقۃ الجزء الأول من الترجمۃ للحدیث ظاہرۃ وأما الجزء الثانی ففی حدیث مالک بن أبی مریم عند الامام احمد و ابن ابی شیبۃ والبخاری فی تاریخہ عن ابی مالک الاشعری مرفوعاً: لبشر بن أناس من أمتی الخمر یسمونہا بغیر اسمہا کما ہوا عادت المؤلف رحمہ اللہ فی الاشارۃ بالترجمۃ إلى حدیث لم یکن على شرطہ۔“”
“”ترجمۃ الباب کے جزء اول سے مطابقت ظاہر ہے حدیث سے اور جو دوسرا جزء ہے (اس کا ذکر) مسند احمد اور ابن ابی شیبہ اور امام بخاری رحمہ اللہ کی تاریخ میں عن ابی مالک الاشعری سے مرفوعاً ہے کہ ”لبشربن أناس من أمتی الخمر یسمونہا بغیر اسمہا“”(یعنی میری امت میں لوگ شراب کا نام دوسرا رکھ لیں گے) جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ آپ ترجمۃ الباب کے ذریعے اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آپ کے شرط پر نہیں ہوتی۔“”
صاحب کواکب الدراری رقمطراز ہیں کہ:
“”الحدیث لیس فیہ الا ذکر الجزء الاول من الترجمۃ لا ذکر تسمیۃ الخمر بغیر اسمہا؟ قلت: لعلہ اکتفاء بما جاء مبیناً فی الروایات الأخر ولم یذکرہ اذ لیس ذالک بشرطہ أو لعلہ نظرہ إلى أن لفظ من أمتی فیہ دلیل على أنہم استحلوہا بتأویل اذ لم یکن بالتاویل لکان کفراً وخروجاً عن امتہ لأن تحریم الخمر معلوم من الدین بالضرورۃ۔“”
“”حدیث کا جزء اول سے باب کی مناسبت ہے۔ لیکن جزء ثانی“”ویسمیہ بغیر اسمہ“”سے مناسبت نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان واضح روایت کی طرف اکتفاء فرمایا ہو، جو کہ آپ کی شرط پر نہیں ہے اور ممکن ہے کہ آپ کی نظر (مناسبت کے لیے) اس لفظ کے ساتھ ہو کہ“”من امتی“ ان الفاظ میں اس بات کی دلیل ہے کہ (امتی لوگ) شراب کو حلال کر دیں گے تاویل کے ذریعے اور اگر وہ تاویل نہیں دیں گے تو یہ کفر اور ملت سے خروج ہو گا، کیوں کہ یہ معلوم دین ہے کہ خمر حرام ہے۔“”
پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 9999
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1155
´شکار اور ذبائح کا بیان`
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ” جو چیز خون کو بہا دے اور اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو تو اس جانور کو کھا لو۔ ذبح کرنے کا آلہ دانت اور ناخن نہیں کیونکہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1155»
تخریج: «أخرجه البخاري، الذبائح، باب الستمية علي الذبيحة...، حديث:5498، ومسلم، الأضاحي، باب جواز الذبح بكل ما أنهر الدم إلا السن وسائر العظام، حديث:1968.»
تشریح:
1. یہ حدیث مطلقاً دانت اور ناخن سے جانور کو مارنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔
خواہ وہ دانت اور ناخن انسان کا ہو یا کسی جانور کا‘ الگ ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہوا ہو، اگرچہ تیز دھار ہی ہو۔
(سبل السلام) 2.حبشیوں سے مراد غیر مسلم حبشی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان لوگوں کی اکثریت غیرمسلموں پر مشتمل تھی۔
غیر مسلموں کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ یہ غیر مسلم حبشیوں کا طریقہ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1155
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4408
´ناخن سے ذبح کرنا منع ہے۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، سوائے اس کے جو دانت اور ناخن سے ذبح کیا گیا ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4408]
اردو حاشہ:
دانت اور ناخن ذبح کرنے کے لیے نہیں بلکہ اور مقاصد کے لیے ہیں، اس لیے دانتوں اور ناخنوں سے ذبح کرنا و حشیانہ فعل ہے جیسا کہ آپ نے ایک ارشاد فرمایا کہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ (صحيح البخاري، الشركة، حديث:2488 و صحيح مسلم، الأضاحي، حديث:1968) یعنی یہ غیر مہذب قوموں کا شیوہ ہے۔ وہ لوگ چھوٹے موٹے جانوروں کی گردن منہ میں داخل کر کے دانتوں سے کاٹ دیتے تھے۔ اسی طرح بڑے بڑے ناخن رکھتے تھے۔ ذبح کرنے کے لیے ان کو استعمال کرتے تھے۔ ظاہر ہے شریعت اس ظالمانہ طریقے کو جائز قرار نہیں دے سکتی، البتہ دانت اور ناخن جسم سے الگ ہو چکے ہوں تو احناف کے نزدیک ان سے ذبح کیا جا سکتا ہے۔ بعض احادیث میں بھی یہ ذکر ہے کہ جو چیز بھی خون بہا دے، اس سے ذبح کرنا جائز ہے، اس لیے بظاہر ان کی یہ بات معقول لگتی ہے مگر احادیث رسول کا تقاضا یہی ہے کہ ناخن اور دانت سے کسی بھی صورت ذبح نہ کیا جائے کیونکہ ایک دوسری روایت میں دانت سے ذبح نہ کرنے کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ ہڈی ہے۔ ظاہر ہے دانت الگ بھی ہو تو وہ ہڈی ہی رہتا ہے۔ ناخن بھی ہڈی ہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4408
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4409
´دانت سے ذبح کرنا منع ہے۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمنوں سے ملیں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، تو آپ نے فرمایا: ”جس چیز سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو) تو اسے کھاؤ، جب تک کہ وہ آلہ دانت یا ناخن نہ ہو، اور جلد ہی تمہیں اس سلسلے میں بتاؤں گا، رہا دانت تو وہ ہڈی ہے اور رہا ناخن تو وہ حبشہ والوں کی چھری ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4409]
اردو حاشہ:
حبشی لوگ ناخنوں سے چھری کا کام لیتے ہیں۔ ایک تو وہ کافر ہیں، اس لیے ان کی مشابہت سے بچنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ ذبح کرنے کا غیر مہذب طریقہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4409
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2821
´دھار دار پتھر سے ذبح کرنے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمنوں سے مقابلہ کرنے والے ہیں، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے (بانس کی کھپچی) سے ذبح کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلدی کر لو ۱؎ جو چیز کہ خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لیا جائے تو اسے کھاؤ ہاں وہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ ہو، عنقریب میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں، دانت سے تو اس لیے نہیں کہ دانت ایک ہڈی ہے، اور ناخن سے اس لیے نہیں کہ وہ جبشیوں کی چھریاں ہیں“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2821]
فوائد ومسائل:
1۔
بوقت ضرورت تیز دھاری دار پتھر اورلکڑی کے تیز چھلکے یا پھٹے وغیرہ سے ذبح کرنا جائز ہے، مگر دانت ہڈی۔
اور ناخن سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت ہے۔
2۔
ذبح کرتےوقت تکبیر پڑھنا۔
اور خون نکلنا لازمی ہے۔
3۔
جو جانور وحشی بن جائے۔
اور قابو میں نہ آرہا ہو تو اسے شکار کی مانند نشانہ مار کرذبح کرنا یا زخمی کرنا حتیٰ کہ قابو میں آجائے جائز ہے۔
جب وہ زخمی ہوکر گرجائے تو اس کے گلے پرچھری پھیرکر اسے ذبح کرلیا جائے۔
4۔
امام کو حق حاصل ہے کہ حسب مصلحت مالی تعزیر لگائے۔
(جرمانہ کرنا مباح ہے)
5۔
اسلامی معاشرے میں عدل کا نفاذ ازحد ضروری ہے۔
بالخصوص جہاد میں اور کفار کے مقابلے میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
کیونکہ یہ عمل کفار پرنصرت اور غلبے کا ایک اہم عنصر ہے۔
6۔
اس حدیث میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دینا ا س موقع پر قیمت کی بنیاد پرتھا۔
اس سے یہ استدلال کرنا کہ ایک اونٹ میں دس افراد حصہ دار ہوسکتے ہیں۔
محل نظر ہے۔
لیکن قربانی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس افراد کے شریک ہونے کا ذکر دوسری احادیث سے ثابت ہے۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے فوائد ومسائل حدیث نمبر 2810)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2821
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3178
´کس چیز سے ذبح کرنا جائز ہے؟`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ غزوات میں ہوتے ہیں اور ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3178]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لوہے کی چھری کے علاوہ نیزے، تلوار اور شیشے کے ٹکڑے وغیرہ سے ذبح کرنا بھی جائز ہے۔
(2)
اگر ہڈی کا ٹکڑا ٹوٹ کر تیز دھار کی طرح بن گیا ہواور اس سے ذبح کرنا ممکن ہو، تب بھی اس سے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔
(3)
کسی چھوٹے جانور یا پرندے کو دانت سے کاٹ کر ذبح کرلیا جائے تو یہ ذبح نہیں ہوگا کیونکہ یہ ممنوع ہے۔
(4)
اسی طرح ناخن سے خون نکال کر جانور کو بے جان کرنا جائز نہیں۔
(5)
حبشیوں سے مراد غیر مسلم حبشی ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ان لوگوں کی غالب اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔
(6)
غیر مسلموں کے رسم ورواج اور طور طریقوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت کا سبب بیان کیا ہے کہ یہ غیر مسلم حبشیوں کا طریقہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3178
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5092
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ! کل ہماری دشمن سے ٹکر ہونے والی ہے اور ہمارے پاس چھری نہیں ہے، (کہ خوراک کے لیے جانور ذبح کر سکیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلدی سے یا ہوشیاری سے، جس سے خون بہہ جائے اور اللہ کا نام لیا جائے، اس کو کھا لو، دانت اور ناخن نہ ہو اور میں تمہیں ابھی بتاتا ہوں، دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔“ نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، ہمیں غنیمت میں اونٹ اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5092]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
آوابد:
آبدة کی جمع ہے،
بھگوڑے،
بدکنے والے۔
(2)
مدية ج مدي:
چھری۔
(3)
ارنی:
اس لفظ اور اس کے معنی میں اختلاف ہے،
جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
(ا)
یہ لفظ اران ارانة سے اقم يا اطع کے وزن پر امر کا صیغہ ارن ہے،
کہتے ہیں اران القوم،
لوگوں كے مویشی ہلاک ہوگئے،
اس طرح یہ فعل لازم ہے،
لیکن یہاں متعدی کا معنی ہیکہ ذبح کرکے اسے ہلاک کرو۔
(ب)
یہ اعط كے وزن،
ارن ہے جس کا معنی ہوتا ہے،
کسی چیز کو مسلسل دیکھنا،
یعنی تسلسل کے ساتھ بغیر سستی کے ذبح کر۔
(ج)
یہ لفظ اريٰ يري اراءة سے ارني ہے،
یعنی جس سے تم ذبح کرنا چاہتے ہو،
مجھے دکھاؤ،
تاکہ میں تمھیں بتا سکوں۔
(د)
یہ لفظ ارني ہےاور تخفیف کے لیےراکوساکن کرکے ارني بنا دیا گیا ہے۔
(ط)
یہ لفظ ارن يارن سے اأرن بروزن اعلم ہے،
نشاط میں آنا،
ہلکا ہونا یعنی چستی سے جلدی کر کے ذبح کر ڈالو،
کہیں اس کا گلا نہ گھونٹ ڈالو،
لیکن اس صورت میں دوسرا ہمزہ یا ہونا چاہیے یعنی ايران ہوگا۔
فوائد ومسائل:
تیز دھار آلہ سے ذبح کرنے سے اصل مقصود یہ ہے،
جانور سے خون نکالنا مطلوب ہے،
جو حرام ہے،
دانت،
ناخن اور ہر قسم کی ہڈی سے ذبح کرنا،
اس لیے منع کیا گیا ہے،
کیونکہ ان سے جانور صحیح طریقہ سے ذبح نہیں ہوتا،
جبکہ اس کا گلا گھٹتا ہے،
جو اس کے لیے تکلیف کا باعث ہے،
لیکن جو جانور بھاگ کھڑا ہو اور اس کو ذبح یا نحر کرنا ممکن نہ ہو،
یہ اضطراری طور پر اس کے جسم کے کسی حصہ کو بھی کاٹ کر خون نکالا جا سکتا ہے،
لیکن اگر اس کو پکڑ کر ذبح یا نحر کیا جا سکتا ہو،
یا کنویں میں گر گیا ہو اور اسے نکال کر ذبح کیا جا سکتا ہو،
تو پھر اضطراری زکاۃ کافی نہیں ہو گی۔
جمہور علماء کا یہی موقف ہے،
لیکن امام مالک،
ربیعہ اور لیث کے نزدیک اضطراری زکاۃ صرف جنگلی حیوانات کے لیے ہے،
مانوس حیوانات کے لیے یہ کسی صورت میں کافی نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5092
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2507
2507. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تہامہ کے علاقے زوالحلیفہ میں تھے۔ ہم نے بکریاں اور اونٹ غنیمت میں حاصل کیے۔ لوگوں نے جلدی کرکے ان کا گوشت ہانڈیوں پر چڑھادیا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہانڈیوں کوالٹ دینے کا حکم دیا توا نھیں الٹ دیاگیا۔ پھر آپ نے تقسیم میں ایک اونٹ کے برابر دس بکریاں رکھیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے بہت کم تھے تو ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور روک دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ ان چوپایوں میں کوئی کوئی وحشی جانوروں کی طرح بھاگ نکلتے ہیں تو جب تم ان پر قابو نہ پاسکو تو ایسا ہی کرو۔“ (راوی حدیث) عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا رافع نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (جس سے جانور ذبح کریں) تو کیا بانس کی کھپچی سے ذبح کرلیں؟ آپ نے فرمایا: ”جلدی کرو، جو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2507]
حدیث حاشیہ:
راوی کو شبہ ہے کہ آپ نے لفظ اعجل فرمایا، یا لفظ ارن فرمایا۔
خطابی نے کہا کہ لفظ ارن اصل میں اءرن تھا جو ارن یا رن سے ہے اور جس کے معنی بھی اعجل یعنی جلدی کرنے کے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2507
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5506
5506. سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”دانت اور ناخن کے علاوہ جو چیز بھی جانور کا خون بہا دے تم ایسے جانور کو کھاؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5506]
حدیث حاشیہ:
باب کی حدیث میں صرف دانت اور ناخن کا ذکر ہے ہڈی امام بخاری نے اس حدیث کے دوسرے طریق سے نکالی جس میں دانت سے ذبح جائز نہ ہونے کی یہ وجہ مذکور ہے کہ وہ ہڈی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5506
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5498
5498. سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم مقام ذوالحلیفہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ لوگوں کو بھوک نے بہت پریشان کیا۔ اس دوران میں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں بطور غنیمت ملیں۔ نبی ﷺ پیچھے تشریف لا رہے تھے کہ لوگوں نے بھوک کی شدت کی وجہ سے جلدی کی اور گوشت ہنڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ جلدی سے ان کے پیچھے آئے اور ہنڈیوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں الٹ دیا گیا، پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی، اس لیے لوگ خود ہی اس کے پیچھے بھاگے لیکن اس نے ان کو تھکا دیا۔ آخر ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ان جانوروں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں اسلیے جب کوئی جانور مارے وحشت کے بھاگ نکلے تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو۔“ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5498]
حدیث حاشیہ:
اس باب کا مطلب اس لفظ سے نکلتا ہے ''و اذکر اسم اللہ علیه''۔
حنفیہ نے اس ناخون اور دانت سے ذبح جائز رکھا ہے جو آدمی کے بدن سے جدا ہو مگر یہ صحیح نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5498
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5509
5509. سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم کل دشمن سے مقابلہ کریں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”پھر جلدی کر لو، جو آلہ بھی خون بہانے والا دستیاب ہو جائے (اس سے ذبح کر لو) اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھاؤ البتہ دانت یا ناخن سے ذبح نہ کیا جائے اور اس کی وجہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ ہمیں ایک غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا تو ایک آدمی نے اسے تیر سے مار گرایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدک کر بھاگ نکلتے ہیں اس لیے اگر ان سے کوئی تمہارے قابو سے باہر ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہى سلوک کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5509]
حدیث حاشیہ:
ایسا اونٹ یا کوئی اور حلال جانور اگر قابو سے باہر ہو جائے توا سے تیر وغیرہ سے بسم اللہ پڑھ کر گرا لیا جائے تو وہ حلال ہے۔
روایت میں مذکور ہ لفظ ''ارن'' راء کے کسرہ اور نون کے جزم کے ساتھ ہے۔
فراجع النووي أن ارن بمعنی اعجل یعنی ذبح کرتے وقت جلدی کرو تا کہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔
(فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5509
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5543
5543. سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کی: کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو آلہ بھی خون بہا دے اسے کھاؤ بشرطیکہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو نیز ذبح کا آلہ دانت اور ناخن نہں ہونا چاہیئے اورمیں اس کی وجہ تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ اس دوران میں کچھ لوگ آگے بڑھ گئے اور مال غنیمت پر قبضہ کر لیا جبکہ نبی ﷺ اپنے صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ پیچھے تھے، ان لوگوں نے گوشت کی دیگیں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ نے حکم دیا تو انہیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے لوگوں میں مال غنیمت تقسیم کیا اور ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر قرار دیا۔ جو لوگ آگے تھے ان کا ایک اونٹ بدک کر بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے اسلیے ایک شخص نے اس اونٹ کو تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک لیا۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5543]
حدیث حاشیہ:
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ حارثی انصاری ہے۔
جنگ احد میں ان کو تیر لگا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن تمہارے اس تیر کا گواہ ہوں۔
ان کا زخم عبدالملک بن مروان کے زمانہ تک باقی رہا۔
86 سال کی عمر میں سنہ 73ھ میں وفات پائی، رضي اللہ عنه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5543
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2507
2507. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تہامہ کے علاقے زوالحلیفہ میں تھے۔ ہم نے بکریاں اور اونٹ غنیمت میں حاصل کیے۔ لوگوں نے جلدی کرکے ان کا گوشت ہانڈیوں پر چڑھادیا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہانڈیوں کوالٹ دینے کا حکم دیا توا نھیں الٹ دیاگیا۔ پھر آپ نے تقسیم میں ایک اونٹ کے برابر دس بکریاں رکھیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے بہت کم تھے تو ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور روک دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ ان چوپایوں میں کوئی کوئی وحشی جانوروں کی طرح بھاگ نکلتے ہیں تو جب تم ان پر قابو نہ پاسکو تو ایسا ہی کرو۔“ (راوی حدیث) عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا رافع نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (جس سے جانور ذبح کریں) تو کیا بانس کی کھپچی سے ذبح کرلیں؟ آپ نے فرمایا: ”جلدی کرو، جو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2507]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے۔
یہ تقسیم کے اعتبار سے ہے، قربانی کے اعتبار سے نہیں، کیونکہ اونٹ میں دس آدمیوں کی نہیں بلکہ سات آدمیوں کی شراکت ہو سکتی ہے۔
لیکن یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ بلاشبہ ہدی کے اونٹ میں سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں جبکہ قربانی کے اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے تو قربانی کا وقت آ گیا، ہم اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے اور گائے میں سات۔
(سنن ابن ماجة، الأضاحي، حدیث: 3131)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جا سکتی ہے اور اونٹ بھی سات افراد کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے۔
" (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2808)
ان روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اونٹ میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں اور سات بھی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2507
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5498
5498. سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم مقام ذوالحلیفہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ لوگوں کو بھوک نے بہت پریشان کیا۔ اس دوران میں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں بطور غنیمت ملیں۔ نبی ﷺ پیچھے تشریف لا رہے تھے کہ لوگوں نے بھوک کی شدت کی وجہ سے جلدی کی اور گوشت ہنڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ جلدی سے ان کے پیچھے آئے اور ہنڈیوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں الٹ دیا گیا، پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی، اس لیے لوگ خود ہی اس کے پیچھے بھاگے لیکن اس نے ان کو تھکا دیا۔ آخر ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ان جانوروں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں اسلیے جب کوئی جانور مارے وحشت کے بھاگ نکلے تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو۔“ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5498]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ذوالحلیفہ سے مراد وہ مقام نہیں جو مدینہ طیبہ کے پاس ہے اور بئر علی کے نام سے مشہور ہے بلکہ یہ تہامہ کی زمین میں مکے اور طائف کے درمیان کی اور جگہ ہے۔
اس مقام پر جو اونٹ اور بکریاں بطور غنیمت ملے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھوک کی وجہ سے تقسیم سے پہلے انہیں ذبح کر کے ان کی ہانڈیاں چڑھا دیں تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا۔
(2)
اس حدیث میں ہے کہ جب جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اور کسی بھی تیز دھار آلے سے اس کا خون بہا دیا جائے تو اس کا کھانا جائز ہے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر بھول کر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو جانور حلال ہے۔
(4)
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت اور ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔
دانت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ یہ ایک ہڈی ہے، اس سے اگر ذبح کیا جائے تو جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا، اسی طرح ناخن سے ذبح کرنے میں بھی جانور کو تکلیف ہوتی ہے اور اس سے جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ذبح کے احکام بیان کرنا شروع کیے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5498
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5503
5503. سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس (جانور) کو تم کھا سکتے ہو لیکن ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو کیونکہ ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے اور دانت ہڈی ہے۔“ اس دوران میں ایک اونٹ بھاگ نکلا تواسے (تیر مار کر) روک لیا گیا۔ آپ نے اس کے متعلق فرمایا: ”یہ اونٹ جنگلی جانوروں کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں ان میں سے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائے اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5503]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے۔
اس دوران میں ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور اسے زخمی کر کے روک لیا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس امر کی صراحت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تیز پتھر یا بانس کی پھانک سے ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو چیز بھی رگوں کو کھول دے اس کے ساتھ ذبح کر سکتے ہو، البتہ دانت اور ناخن سے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔
“ (المعجم الأوسط للطبراني: 238/5، و رقم: 7190، و فتح الباري: 781/9) (3)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے ذبیحے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2826)
شیطان کے ذبیحے سے مراد ایسا جانور ہے جس کا ذبح کے وقت ذرا سا حلق کاٹ دیا جائے اور پوری رگیں نہ کاٹی جائیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے۔
جاہلیت کے زمانے میں مشرک لوگ ایسا ہی کرتے تھے۔
چونکہ شیطان نے انہیں ایسے کام پر آمادہ کیا تھا، اس لیے اسے شیطان کا ذبیحہ کہا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، وہ اس طرح کہ چھری کو تیز کر لو اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچاؤ۔
“ (صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 5055 (1955)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5503
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5506
5506. سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”دانت اور ناخن کے علاوہ جو چیز بھی جانور کا خون بہا دے تم ایسے جانور کو کھاؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5506]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اگرچہ ہڈی کا ذکر نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، اس میں دانت سے ذبح ناجائز ہونے کی وجہ ان الفاظ سے بیان ہوئی ہے کہ دانت ہڈی ہے۔
(صحیح البخاري، حدیث: 5503)
بہرحال ذبح کرتے وقت دانت، ہڈی اور ناخن سے بچنا چاہیے کیونکہ ان سے ذبح کرنے کی ممانعت ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5506
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5509
5509. سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم کل دشمن سے مقابلہ کریں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”پھر جلدی کر لو، جو آلہ بھی خون بہانے والا دستیاب ہو جائے (اس سے ذبح کر لو) اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھاؤ البتہ دانت یا ناخن سے ذبح نہ کیا جائے اور اس کی وجہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ ہمیں ایک غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا تو ایک آدمی نے اسے تیر سے مار گرایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدک کر بھاگ نکلتے ہیں اس لیے اگر ان سے کوئی تمہارے قابو سے باہر ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہى سلوک کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5509]
حدیث حاشیہ:
بے بسی اور مجبوری کی حالت میں جب ذبح کی مہلت نہ ملے اور کہیں سے بھی خون بہہ جائے تو وہ ذبح کے معنی میں ہو گا جیسا کہ شکار میں ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ کسی نے سوال کیا:
اللہ کے رسول! کیا جانور کا ذبح کرنا نرخرے یا حلق ہی سے ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تو اس کی ران میں بھی کوئی تیر وغیرہ مارے تو کافی ہے۔
“ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2825، و إرواء الغلیل: 168/1، رقم: 2535)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم اس کے متعلق امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ صورت صرف اس جانور میں ہے جو کہیں نیچے جا گرا ہو یا وحشی بن گیا ہو۔
بہرحال بے بسی کی حالت میں جانور کو کسی بھی جگہ سے ذبح کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5509
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5543
5543. سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کی: کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو آلہ بھی خون بہا دے اسے کھاؤ بشرطیکہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو نیز ذبح کا آلہ دانت اور ناخن نہں ہونا چاہیئے اورمیں اس کی وجہ تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ اس دوران میں کچھ لوگ آگے بڑھ گئے اور مال غنیمت پر قبضہ کر لیا جبکہ نبی ﷺ اپنے صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ پیچھے تھے، ان لوگوں نے گوشت کی دیگیں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ نے حکم دیا تو انہیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے لوگوں میں مال غنیمت تقسیم کیا اور ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر قرار دیا۔ جو لوگ آگے تھے ان کا ایک اونٹ بدک کر بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے اسلیے ایک شخص نے اس اونٹ کو تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک لیا۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5543]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے مختصر طور پر حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا حوالہ دیا، پھر تفصیلی روایت بیان کی۔
چونکہ تقسیم غنیمت سے پہلے وہ ان کے مالک نہیں تھے، لہذا ان کا اجازت کے بغیر جانوروں کو ذبح کرنا ناجائز تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوشت کو ضائع کر دیا۔
اسی طرح چور جب چوری کا جانور ذبح کرتا ہے تو بھی کسی غیر کے مال پر ناجائز تصرف کرتا ہے، اس کا بھی کھانا منع ہے۔
اگرچہ کچھ فقہاء نے چور کے ذبح کیے ہوئے جانور کو کھانا جائز قرار دیا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5543