(مرفوع) حدثنا ابو سعيد عبد الله بن سعيد الاشج، حدثنا حفص بن غياث , وعقبة بن خالد , قالا: حدثنا الاعمش , وابن ابي ليلى , عن عمرو بن مرة، عن عبد الله بن سلمة، عن علي، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئنا القرآن على كل حال ما لم يكن جنبا ". قال ابو عيسى: حديث علي هذا حسن صحيح، وبه قال: غير واحد من اهل العلم اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، قالوا: يقرا الرجل القرآن على غير وضوء ولا يقرا في المصحف إلا وهو طاهر، وبه يقول سفيان الثوري , والشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ , وَعُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , وَابْنُ أَبِي لَيْلَى , عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلِمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا ". قال أبو عيسى: حَدِيثُ عَلِيٍّ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ قَالَ: غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، قَالُوا: يَقْرَأُ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاقُ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔ خواہ کوئی بھی حالت ہو جب تک کہ آپ جنبی نہ ہوتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی وضو کے بغیر قرآن پڑھ سکتا ہے، لیکن مصحف میں دیکھ کر اسی وقت پڑھے جب وہ باوضو ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
وضاحت: ۱؎: بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ تخریج میں گزرا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة91 (229)، سنن النسائی/الطہارة 171 (266، 267)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 105 (594)، (تحفة الأشراف: 10186) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلمہ کا حافظہ آخری دور میں کمزور ہو گیا تھا، اور یہ روایت اسی دور کی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (594)، // ضعيف سنن ابن ماجة (129)، ضعيف أبي داود (39/229) نحوه، المشكاة (460)، الإرواء (192 و 485)، ضعيف سنن النسائي برقم (9/265) وهو في ضعيف ابن ماجة بلفظين هما " لا يحجبه - أو يحجزه - عن القرآن شيء إلا الجنابة "، ولفظ " لا يقرأ القرآن الجنب ولا الحائض " //
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 146
فقہ الحدیث: قرآن مجید کو بےوضو ہاتھ میں پکڑ کر تلاوت کرنا درست نہیں۔ سلف صالحین نے قرآن و سنت کی نصوص سے یہی سمجھا ہے۔ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو اسلاف امت نے لیا ہے۔ مسلک اہل حدیث اسی کا نام ہے۔ آئیے تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
❶ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ»” اس (قرآن کریم) کو پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔“[56-الواقعة:79] ↰ اس آیت کریمہ میں پاک لوگوں سے مراد اگرچہ فرشتے ہیں لیکن اشارۃ النص سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان بھی پاک ہو کر ہی اسے تھامیں، جیسا کہ: ◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728 ھ) فرماتے ہیں: «ھذا من باب التنبیہ والاشارۃ، اذا کانت الصحف التی فی السماء لا یمسھا الا المطھرون، فکذلک الصحف التی بایدینا من القرآن لا ینبعی ان یمسھا الا طاھر .» ” یہ ایک قسم کی تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جب آسمان میں موجود صحیفوں کو صرف پاک فرشتے ہی چھوتے ہیں تو ہمارے پاس جو قرآن ہے، اسے بھی صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگائیں۔“[التبیان فی اقسام القرآن لابن القیم، ص:338]
◈ علامہ طیبی اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں: «فإن الضمير إما للقرآن، والمراد نهي الناس عن مسه إلا على الطهارة، وإما للوح، ولا نافية، ومغنى المطهرون الملائكة، فإن الحديث كشف أن المراد هو الأول، ويعضده مدح القرآن بالكرم، وبكونه ثابتا فى اللؤح المحفوظ، فيكون الحكم بكونه لا يمسه مرتبا على الوصفين المتناسبين للقرآن.» ” ضمیر یا تو قرآن کریم کی طرف لوٹے گی یا لوح محفوظ کی طرف۔ اگرقرآن کریم کی طرف لوٹے تو مراد یہ ہے کہ لوگ اسے طہارت کی حالت میں ہی ہاتھ لگائیں۔ اگر لوح محفوظ کی طرف ضمیر لوٹے تو «لا» نفی کے لیے ہو گا اور پاک لوگوں سے مراد فرشتے ہوں گے۔ حدیث نبوی نے بتا دیا ہے کہ پہلی بات ہی راجح ہے۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کو کریم بھی کہا گیا ہے اور اس کا لوح محفوظ میں ہونا ثابت بھی کیا گیا ہے، اس طرح نہ چھونے کے حکم کا اطلاق قرآن کریم کی دونوں حالتوں (لوح محفوظ اور زمینی مصحف) پر ہو گا۔“[تحفة الأحوذي لمحمد عبدالرحمن المباركفوري:137/1]
❷ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «انهٔ كان لا يمس المصحف الا و هو طاهر .» ” آپ قرآن کریم کو صرف طہارت کی حالت میں چھوتے تھے۔“[مصنف ابن أبى شيبة:1/2 32، وسندۂ صحيح]
❸ مصعب بن سعدبن ابی وقاص تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «كنت أمسك المصحف على سعد بن أبى وقاص، فاحتككت، فقال لي سعد: لعلك مسست ذكرك؟، قال: قلت: نعم، فقال: فقم، فتوضأ، فقمت، فتوضأت، ثم رجعت .» ” میں اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کریم کا نسخہ پکڑے ہوئے تھا۔ میں نے جسم پر خارش کی۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم نے اپنی شرمگاہ کو چھوا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، تو انہوں نے فرمایا: جاؤ اور وضو کرو۔ میں نے وضو کیا، پھر واپس آیا۔“[الموطا للامام مالك 42/1، وسندهٔ صحيح]
❹ غالب ابوہذیل کا بیان ہے: «امرني ابورزين (مسعود بن مالك) أن أفتح المصحف على غير وضوء، فسألت إبراهيم، فكرهه.» ” مجھے ابورزین مسعود بن مالک اسدی نے بغیر وضو مصحف کو کھولنے کا کہا تو میں نے اس بارے میں ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ سے سوال کیا۔ انہوں نے اسے مکروہ جانا۔“[مصنف ابن ابي شيبة: 321/2، و سندهٔ حسن]
❺ امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «كان سفيان يكره ان يمس المصحف، وهو علٰي غير وضوء.» ” امام سفیان تابعی رحمہ اللہ بغیر وضو کے مصحف کو چھونے کو مکروہ سمجھتے تھے۔“[كتاب المصاحف لابن أبي داود: 740، وسندهٔ صحيح]
❻ ❼ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان دونوں تابعی ہیں۔ ان سے بے وضو، انسان کے قرآن کریم کو پکڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو دونوں کا فتویٰ یہ تھا: «إذا كان فى علاقة، فلا بأس به.» ” جب قرآن کریم غلاف میں ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“[كتاب المصاحف لابن ابي داود: 762، وسندهٔ صحيح] ↰ یعنی بغیر غلاف کے بے وضو چھونا ان صاحبان کے ہاں بھی درست نہیں۔
❽ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لا يحمل المصحف بعلاقته، ولا علٰي وسادة أحد إلا وهو طاهر.» ” قرآن پاک کو غلاف کے ساتھ یا تکیے پر رکھ کر بھی کوئی پاک شخص ہی اٹھائے۔“[الموطا: 199/1]
❾ ❿ امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا بھی یہی موقف تھا، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وبه قال غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم والتابعين، قالوا: يقرا الرجل القرآن على غير وضوء، ولا يقرا فى المصحف إلا وهو طاهر، وبه يقول سفيان الثوري، والشافعي، وأحد، وإسحاق.» ” بہت سے اہل علم صحابہ و تابعین کا یہی کہنا ہے کہ بےوضو آدمی قرآن کریم کی زبانی تلاوت تو کر سکتا ہے، لیکن مصحف سے تلاوت صرف طہارت کی حالت میں کرے۔ امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا یہی مذہب ہے۔“[سنن الترمذي، تحت الحديث: 146]
◈ شارح ترمذی علامہ محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «القول الراجح عندي قول أكثر الفقهاء، وهو الذى يقتضيه تعظيم القرآن وإكرامه، والمتبادر من لفظ الطاهر فى هذا الحديث هو المتوضي، وهو الفرد الكامل للطاهر، والله تعالى أعلم.» ” میرے نزدیک جمہور فقہاء کا قول راجح ہے۔ قرآن کریم کی تعظیم و اکرام بھی اسی کی متقاضی ہے۔ اس حدیث میں طاہر کے لفظ کا متبادر معنی وضو والا شخص ہی ہے اور باوضو شخص ہی کامل طاہر ہوتا ہے۔ «والله اعلم!»“[تحفة الأحوذي:137/1]
الحاصل: قرآن کریم کو بغیر وضو زبانی پڑھا جا سکتا ہے لیکن بے وضو شخص ہاتھ میں پکڑ کر اس کی تلاوت نہیں کر سکتا۔ یہی قول راجح ہے کیونکہ سلف صالحین کی تصریحات کی روشنی میں قرآن و سنت کی نصوص سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 102
´جنبی مرد کو غسل کیے بغیر قرآن پاک کی تلاوت` «. . . وعن علي رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقرئنا القران ما لم يكن جنبا . . .» ”. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت کے علاوہ ہر حالت میں ہمیں قرآن مجید پڑھا دیا کرتے تھے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 102]
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی مرد کو غسل کیے بغیر قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرنی چاہیے، یعنی قرآن کی نیت سے ایک آیت بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔ ➋ امام ابویعلیٰ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے پہلے وضو کیا اور پھر بعد میں قرآن مجید پڑھا اور فرمایا: ”جس کسی کو جنابت لاحق نہ ہو اس کے لیے مناسب طریقہ یہی ہے (کہ وضو کر کے تلاوت قرآن مجید کرے۔) اور جنبی نہ پڑھے اگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو۔“[مسند أبى يعليٰ، بتحقيق الشيخ الأثري: 208/1] ➌ جو علماء، جنابت اور حیض کی حالت میں بھی تلاوت قرآن سمیت اللہ کا ذکر کرنے کی اجازت دیتے ہیں، ان کے نزدیک یہ حدیث درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 102
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 229
´ جنبی قرآن پڑھے اس کے حکم کا بیان` «. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَرَجُلَانِ، رَجُلٌ مِنَّا وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ أَحْسِبُ، فَبَعَثَهُمَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجْهًا، وَقَالَ: إِنَّكُمَا عِلْجَانِ، فَعَالِجَا عَنْ دِينِكُمَا، ثُمَّ قَامَ فَدَخَلَ الْمَخْرَجَ، ثُمَّ خَرَجَ فَدَعَا بِمَاءٍ، فَأَخَذَ مِنْهُ حَفْنَةً فَتَمَسَّحَ بِهَا، ثُمَّ جَعَلَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَأَنْكَرُوا ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ مِنَ الْخَلَاءِ فَيُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ، وَيَأْكُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ وَلَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ، أَوْ قَالَ: يَحْجُزُهُ عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ . . . .» ”. . . عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں میں اور میرے ساتھ دو آدمی جن میں سے ایک کا تعلق میرے قبیلہ سے تھا اور میرا گمان ہے کہ دوسرا قبیلہ بنو اسد سے تھا، علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو آپ نے ان دونوں کو (عامل بنا کر) ایک علاقہ میں بھیجا، اور فرمایا: تم دونوں مضبوط لوگ ہو، لہٰذا اپنے دین کی خاطر جدوجہد کرنا، پھر آپ اٹھے اور پاخانہ میں گئے، پھر نکلے اور پانی منگوایا، اور ایک لپ لے کر اس سے (ہاتھ) دھویا، پھر قرآن پڑھنے لگے، تو لوگوں کو یہ ناگوار لگا، تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکل کر ہم کو قرآن پڑھاتے، اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر گوشت کھاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن (پڑھنے پڑھانے) سے جنابت کے علاوہ کوئی چیز نہ روکتی یا مانع نہ ہوتی . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ: 229]
فوائد و مسائل: ➊ اس روایت سے جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت ممنوع ثابت ہوتی ہے، لیکن اس کی صحت متفق علیہ نہیں۔ دیگر محققین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ نیز دیگر وہ احادیث بھی، جن میں حالت جنابت میں قرآن پڑھنے سے روکا گیا ہے، ضعیف ہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ: ”وہ جنبی کے لیے قرأت قرآن میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔“ یعنی ان کے نزدیک جنبی کا قرآن پڑھناجائز ہے۔ امام بخاری، امام ابن تیمیہ و ابن قیم اور امام ابن حزم رحمها اللہ وغیرہ کا موقف بھی یہی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [نيل الاوطارشوكانيٰ باب تحريم القراءة على الحائض والجنب وصحيح بخاري‘باب نقضي الحائض المناسك كلها]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 229
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 266
´جنبی کو قرآن پڑھنے سے روکنے کا بیان۔` عبداللہ بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور دو آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو قرآن مجید پڑھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گوشت کھاتے اور آپ کو قرآن مجید پڑھنے سے جنابت کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 266]
266۔ اردو حاشیہ: ➊ قرآن مجید پڑھنے کے لیے وضو ضروری نہیں ہے، البتہ قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے لیے اکثر اہل علم نے وضو ضروری قرار دیا ہے، اگرچہ اس کی دلیل اتنی قوی نہیں۔ بنابریں اگر ہاتھوں پر نجاست وغیرہ نہ لگی ہو تو بلاوضو بھی قرآن کو پکڑا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ جمہور اہل علم کے نزدیک جنابت کی حالت میں قرآن مجید پڑھنا منع ہے اور یہ قرآن مجید کے احترام کے طور پر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن مجید کو عام ذکر کی طرح جنابت میں بھی جائز سمجھا ہے۔ امام ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حزم رحمہم اللہ وغیرہ کا موقف بھی یہی ہے۔ ان کے نزدیک ممانعت کی تمام روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ دلائل کی رو سے اگرچہ انہی اجلاء علماء کی رائے قوی اور راجح معلوم ہوتی ہے لیکن یہ جواز علی الاطلاق مناسب نہیں لگتا بلکہ اس میں قدرے ناپسندیدگی اور کراہت کا پہلو محسوس ہوتا ہے جیسا کہ یہ بات نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ظاہر ہوتی ہے جبکہ آپ پیشاب سے فارغ ہوئے، پھر تیمم کیا اور اس کے بعد سلام کا جواب دیا، اور فرمایا: «إنی کرھت أن أذکر اللہ إلا علی طھارة»[صیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 13] ”میں نے بلاطہارت اللہ کا ذکر کرنا ناپسند کیا تھا۔“ گویا سلام کا جواب بھی آپ نے تیمم کے بعد دیا ہے اور اسے ذکر اللہ قرار دیا۔ قرآن بھی ذکر ہے جو کہ اس ذکر سے بہتر ہے، اس لیے افضل یہی ہے کہ غسل کے بعد ہی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 266
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 229
↰ قارئین کرام! جب بےوضو قرآن مجید پکڑنا جائز نہیں (دلائل کے لئے بلوغ المرام حدیث نمبر 72 کے فوائد و مسائل دیکھیں)، تو حالت جنابت یا ایام مخصوصہ میں کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ باقی رہی بات حالت جنابت اور ایام مخصوصہ میں تلاوت قرآن کی تو اس بارے میں اگرچہ اہل علم کی آراء مختلف ہیں، لیکن ہم جسے راجح سمجھتے ہیں وہ یہی ہے کہ باقاعدہ اہتمام سے تلاوت قرآن نہ کی جائے اور اس کی وجوہ حسب ذیل ہیں: ➊ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن مجید پڑھنے سے کوئی چیز مانع نہ ہوتی، سوائے جنابت کے۔ [سنن أبى داود: 229، حسن] ◈ اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا: «والحق أنه من قبيل الحسن يصلح للحجة» ”یعنی حق یہی ہے کہ یہ روایت حسن کی قبیل سے ہے، حجت و استدلال کے لیے مناسب ہے۔“[فتح الباري: 1/ 408] مذکورہ روایت پر جو بنیا دی اعتراض کیا جاتا ہے وہ عبداللہ بن سلمہ کی صورت میں ہے: (1) بعض نے انہیں ضعیف کہا، حالانکہ جمہور محدثین کے نزدیک یہ صدوق و حسن الحدیث راوی ہیں، مثلاً: امام ابن خزیمہ، امام ابن الجارود، امام ابن حبان، امام حاکم، امام ابن عدی، امام شعبہ، امام بغوی، امام عجلی، امام ترمذی، امام ضیاء الدین المقدسی، امام ذہبی، امام ابن حجر اور امام محمد بن علی المقدسی وغیرہ۔ لہٰذا انہیں ضعیف قرار دینا درست نہیں۔ (2) عبداللہ بن سلمہ مختلط ہیں۔ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس اعتراض کا ازالہ کیا ہے، چنانچہ آپ کے نزدیک جس روایت میں بعد از اختلاط سننے کی صراحت ہے وہ ثابت نہیں اور اس اختلاط کا علم چونکہ عمرو بن مرہ کے ذریعے سے ہوا ہے اور اس حدیث کے راوی بھی عمرو ہی ہیں، لہٰذا یہ دلیل ہے کہ عمرو بن مرۃ نے یہ روایت قبل از اختلاط سنی ہے۔ [فتاويٰ علميه: 1/ 202، 201] علاوہ ازیں امام شعبہ رحمہ اللہ نے فرمایا: «هذا ثلث رأس مالي» یہ (حدیث) میرے سرمائے کا ایک تہائی ہے۔ [صحيح ابن خزيمة: 208] اسی طرح آپ نے فرمایا: «ما احدث بحديث أحسن منه .» ”یعنی میں اس حدیث سے بہتر کوئی حدیث بیان نہیں کرتا۔“[سنن الدارقطني: 119/1، ح 423 وسنده حسن] امام شعبہ رحمہ اللہ کے مذکورہ دونوں قول اسی پر دلالت کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک بھی عمرو بن مرۃ نے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے۔ یاد رہے کہ خود امام شعبہ رحمہ اللہ مذکورہ بالا حدیث براہ راست عمرو بن مرۃ سے روایت کرنے والے ہیں۔ اس حدیث کے راوی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ بھی اسی کے قائل تھے کہ جنبی تلاوت قرآن نہ کرے۔ آپ کے قول سے بھی مذکورہ حدیث کو تقویت ہی ملتی ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: «اقراؤا القرآن ما لم يصب أحدكم جنابة، فإن أصابته جنابة؛ فلا ولا حرفا واحدا .» ”یعنی قرآن مجید پڑھو، جب تک جنبی نہ ہو جاؤ، پھر اگر جنابت لاحق ہو جائے تو ایک حرف (بھی) نہ پڑھو۔“[سنن الدارقطني: 118/1، ح: 425، 419 وسنده حسن] خود امام دارقطنی رحمہ اللہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اثر کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ ابوالغریف الہمدانی: بعض اہل علم نے ابوالغریف پر کلام کیا ہے، لیکن قول راجح میں یہ صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔ امام یعقو ب بن سفیان الفسوی نے انہیں ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔ [المعرفة والتاريخ: 199/3] امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی ثقہ کہا ہے، نیز اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔ «كما تقدم .» امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: 299/2) اور امام عجلی رحمہ اللہ (الثقات: 1154) دونوں نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ضیاء الدین المقدسی نے تصحیح حدیث کے ذریعے سے توثیق کی۔ [المختارة: 621] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ” صدوق“ کہا۔ [التقريب: 4286] حافظ ہیثمی نے بھی توثیق کر رکھی ہے۔ [مجمع الزوائد: 276/1] قارئین کرام! اس مرفوع و موقوف روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالت جنابت وغیرہ میں تلاوت قرآن متحسن نہیں۔ «والله اعلم»
بعض اہل علم مطلق حدیث کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ جب خاص حدیث ثابت ہو تو اسے عام پر فوقیت حاصل ہوتی ہے، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: «والدليل الخاص مقدم على العام .»”اور خاص دلیل عام پر مقدم ہے۔“[مجموع فتاوي: 141/31] اسی طرح بعض حضرات ”مومن نجس نہیں ہوتا“ سے بھی استدلال کرتے ہیں، اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو اوپر عموم و خصوص کے تحت گزرا ہے، علاوہ ازیں یہ لازم نہیں کہ جنبی یا حائضہ کو نجس قرار دے کر ہی تلاوت قرآن وغیرہ سے روکا جائے، بعض امور کی ادائیگی کے لیے خاص آداب و اطوار مقرر ہیں، اسی طرح تلاوت قرآن مجید کے لیے بھی ہیں جن کی وضاحت مذکورہ سطور میں کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں امام مالک رحمہ اللہ کا قول بھی پیش نظر رہنا چاہیے جو شروع میں نقل کیا جا چکا ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس مسئلے میں ہم منفرد نہیں بلکہ ہمارے اسلاف میں سے ایک جماعت یہی موقف رکھتی ہے۔ امام ابن منذر رحمہ اللہ نے فرمایا: «احتج الذين كرهوا للجنب قراءة القرآن بحديث على .» ”لیکن لوگوں(کی ایک جماعت) نے حدیث علی (رضی اللہ عنہ) سے جنبی کے لیے تلاوت قرآن کی ممانعت پر استدلال کیا ہے۔“[الاوسط: 2/ 222] امام رفیع بن مہران، ابوالعالیہ (متوفی 90ھ) نے حائضہ سے متعلق فرمایا: «لا تقرأ القرآن» ”یعنی وہ قرآن مجید نہ پڑھے۔“[سنن الدارمي: 1035 وسنده صحيح] معروف جلیل القدر تابعی ابووائل شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ”جنبی اور حائضہ (اس حالت میں) قرآن نہ پڑھیں۔“[مصنف ابن ابي شيبه: 102/1، ح: 1094 وسنده صحيح] امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بھی اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ دیکھیے: [مصنف ابن ابي شيبة: 103/1 ح: 1103 وسنده صحيح] امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا: «أما الحائض فلا تقرأ شيئا . . . .» ”یعنی رہی بات حائضہ کی تو وہ (قرآن میں سے) کچھ بھی نہ پڑھے۔“[مصنف عبدالرزاق: 336/1 ح 1303 وسنده صحيح]
بعض اہل علم ایک یا دو آیتیں پڑھنے کی گنجائش (جواز) کے قائل ہیں، ممکن ہے ان کے پیش نظر وہ روایت ہو جسے امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح (قبل حدیث: 305) میں ذکر کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انے ہرقل (بادشاہ) کی طرف بسم اللہ اور سورہ آل عمران کی آیت (64) لکھ کر بھیجی تھی۔ «والله اعلم» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مخصوص حصہ پڑھنے کے قائل و فائل تھے۔ ملاحظہ کیجیے: [فتاوي علميه 203/1] وغیرہ۔
تنبیہ:۔۔۔ الاوسط لابن المنذر [1/ 221] کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حالت جنابت میں مطلق تلاوت قرآن جائز سمجھتے تھے وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ عکرمہ مولیٰ ابن عباس رحمہ اللہ بھی حالت جنابت میں ایک دو آیتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 102/1 ح: 1098 وسنده صحيح] امام محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ بھی جنبی و حائضہ کے لیے ایک دو آیتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 102/1 ح: 10987 وسنده صحيح] اہل علم کی مذکورہ تحصیص سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی جنبی و حائضہ کی مطلق تلاوت قرآن درست نہیں۔
خلاصہ کلام: مذکورہ بالا تحقیق اور ائمہ کے اقوال سے یہی واضح ہوتا ہے کہ حالت جنابت و حیض میں باقاعدہ تلاوت قرآن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ «والله اعلم بالصواب»
ماہنامہ الحديث حضرو، شمارہ 145، حدیث/صفحہ نمبر: 12
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث594
´بےوضو قرآن پڑھنے کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء جاتے اور اپنی حاجت پوری فرماتے، پھر واپس آ کر ہمارے ساتھ روٹی اور گوشت کھاتے، قرآن پڑھتے، آپ کو قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا کوئی چیز نہ روکتی تھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 594]
اردو حاشہ: (1) امام ترمذی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ ہمیں ہر حالت میں قرآن مجید پڑھاتے تھے جب تک جنابت سے نہ ہوتے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، باب ماجاء في الرجل يقراء القرآن علي كل حال ما لم يكن جنبا، حديث: 146) امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرکے فرمایا: (حديث علي (هذا) حديث حسن صحيح) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے بھی صحیح قراردیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے (2) حائضہ اور جنبی قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں کہ نہیں؟ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔ اس مسئلے میں علماء کرام کے قابل ذکر تین اقوال ہیں:
(ا) حائضہ عورت اور جنبی شخص مطلقاً تلاوت قرآن کرسکتے ہیں۔ یہ رائے امام بخاری، ابن حزم اور دیگے آئمہ کی ہے۔
(ب) حائضہ عورت اور جنبی شخص مطلقاً تلاوت نہیں کرسکتے۔ یہ جمہور علماء کی رائے ہے۔
(ج) تیسری رائے یہ ہے کہ حائضہ عورت اور جنبی شخص کے لیے تلاوت کرنا مکروہ تنزیہی ہے”یعنی اگر وہ تلاوت نہ کریں تو یہ افضل و بہتر ہےلیکن اگر تلاوت کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ رائے مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر راجح ہے۔ جمہور علماء جو تلاوت سے منع کے قائل ہیں ان کے تمام دلائل ضعیف اور ناقال استدلال ہیں۔ مثلاً حدیث: (لَاتَقْرَإِالْحَائِضُ وَلَاالْجُنُبُ شَيْئًا مِّنَ الْقُرْآنِ)(جامع الترمذي، الطهارة، باب ماجاء في الجنب والحائض، انهما لايقران القرآن، حديث: 131، و ارواء الغليل: 206/1) اور (فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَّلَا جُنُبٍ)(ابو داؤد، حديث: 232) اور اگر کوئی صحیح دلیل بھی ہے تو اس سے استدلال کرنا محل نظر ہے۔ مثلاً: آیت قرآنی: ﴿لَايَمَسُّهُ اِلَّاالْمُطَهَّرُوْنَ﴾(الواقعه: 79/56) سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں ﴿الْمُطَهَّرُوْنَ﴾ سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ جن علمائے کرام کے نزدیک مطلقاً قرآن مجید جائز ہے ان کے دلائل عمومی ہیں۔ اور ان سے مطلقاً جواز کا مفہوم لینا بھی محل نظر ہے کیونکہ ان عمومی دلائل کے باوجود بعض ایسی صورتی، ملتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو نہ ہونے کی وجہ سے احتیاط پر عمل کیا ہے، جیسے کہ آپ نے اس شخص کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا جس نے آپ کو ایسے وقت میں سلام کہا جب آپ بے وضو تھے، پھر آپ نے طہارت کے بعد اس کے سلام کا جواب دیا۔ ایسے ہی دلائل کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عدم طہارت کی حالت میں تلاوت قرآن سے اجتناب کرنا بہتر ہے جبکہ جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
(3) عہد حاضر میں بچیوں کے مدارس میں یہ مسئلہ عام طور سے پیش آتا رہتا ہے۔ کبھی استانی اس مشکل کا شکار ہوتی ہیں تو کبھی طالبات کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ان مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ مذکورہ میں محتاط اور قرین انصاف رائے یہی ہے کہ بغیر طہارت کے تلاوت کرنا مکروہ ہے اور ضرورت وحاجت کے وقت اسکی اجازت ہے۔ واللہ اعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 594