سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
65. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّجْشِ فِي الْبُيُوعِ
65. باب: بیع میں نجش کے حرام ہونے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1304
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن منيع، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال قتيبة: يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تناجشوا ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا النجش. قال ابو عيسى: والنجش ان ياتي الرجل الذي يفصل السلعة إلى صاحب السلعة، فيستام باكثر مما تسوى وذلك عندما يحضره المشتري، يريد ان يغتر المشتري به، وليس من رايه الشراء، إنما يريد ان يخدع المشتري بما يستام، وهذا ضرب من الخديعة، قال الشافعي: وإن نجش رجل فالناجش آثم فيما يصنع، والبيع جائز لان البائع غير الناجش.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَنَاجَشُوا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا النَّجْشَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالنَّجْشُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الَّذِي يَفْصِلُ السِّلْعَةَ إِلَى صَاحِبِ السِّلْعَةِ، فَيَسْتَامُ بِأَكْثَرَ مِمَّا تَسْوَى وَذَلِكَ عِنْدَمَا يَحْضُرُهُ الْمُشْتَرِي، يُرِيدُ أَنْ يَغْتَرَّ الْمُشْتَرِي بِهِ، وَلَيْسَ مِنْ رَأْيِهِ الشِّرَاءُ، إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَخْدَعَ الْمُشْتَرِيَ بِمَا يَسْتَامُ، وَهَذَا ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ نَجَشَ رَجَلٌ فَالنَّاجِشُ آثِمٌ فِيمَا يَصْنَعُ، وَالْبَيْعُ جَائِزٌ لِأَنَّ الْبَائِعَ غَيْرُ النَّاجِشِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نجش نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے «نجش» کو ناجائز کہا ہے،
۴- «نجش» یہ ہے کہ ایسا آدمی جو سامان کے اچھے برے کی تمیز رکھتا ہو سامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہو جب خریدار اس کے پاس موجود ہو، مقصد صرف یہ ہو کہ اس سے خریدار دھوکہ کھا جائے اور وہ (دام بڑھا چڑھا کر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتا ہو بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھا جائے۔ یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے،
۵- شافعی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی «نجش» کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی «نجش» کرنے والا گنہگار ہو گا اور بیع جائز ہو گی، اس لیے کہ بیچنے والا تو «نجش» نہیں کر رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 58 (2140)، و64 (2150)، و70 (2160)، والشروط 8 (2723)، صحیح مسلم/النکاح 6 (1413/52)، سنن ابی داود/ البیوع 46 (3438)، سنن النسائی/البیوع 16 (4510)، سنن ابن ماجہ/التجارات 13 (2174)، (تحفة الأشراف: 13123)، و موطا امام مالک/البیوع 45 (96)، و مسند احمد (2/238، 474، 487)، وانظر ما تقدم بأرقام: 1134، 1190، 1222) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2174)

   جامع الترمذي1304عبد الرحمن بن صخرلا تناجشوا
   سنن أبي داود3438عبد الرحمن بن صخرلا تناجشوا
   سنن ابن ماجه2174عبد الرحمن بن صخرلا تناجشوا


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.