عبداللہ بن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کسی ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو پھر اسے واپس لینے کا اختیار نہیں، اور جو کسی غیر ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو اس کے لیے اسے واپس لینا جائز ہے جب اسے اس کا بدلہ نہ دیا گیا ہو، یہی ثوری کا قول ہے،
۳- اور شافعی کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کو کوئی عطیہ دے پھر اسے واپس لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے، شافعی نے عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے
“۔
● جامع الترمذي | 1299 | | لا يحل لأحد أن يعطي عطية فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده |
● جامع الترمذي | 2132 | | لا يحل للرجل أن يعطي عطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد في قيئه |
● سنن أبي داود | 3539 | | لا يحل لرجل أن يعطي عطية أو يهب هبة فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب يأكل فإذا شبع قاء ثم عاد في قيئه |
● سنن ابن ماجه | 2377 | | لا يحل للرجل أن يعطي العطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده |
● سنن النسائى الصغرى | 3720 | | لا يحل لرجل يعطي عطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي عطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد في قيئه |
● سنن النسائى الصغرى | 3733 | | لا يحل لأحد أن يعطي العطية فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده مثل الذي يعطي العطية فيرجع فيها كالكلب يأكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد فرجع في قيئه |
● بلوغ المرام | 790 | | لا يحل لرجل مسلم أن يعطي العطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده |