سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
52. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفَرْقِ بَيْنَ الأَخَوَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ
52. باب: غلاموں کی بیع میں دو بھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1284
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن قزعة، اخبرنا عبد الرحمن بن مهدي، عن حماد بن سلمة، عن الحجاج، عن الحكم، عن ميمون بن ابي شبيب، عن علي، قال: وهب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم غلامين اخوين، فبعت احدهما، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا علي، ما فعل غلامك؟ " فاخبرته، فقال: " رده رده ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد كره بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، التفريق بين السبي في البيع، ويكره ان يفرق بين الوالدة وولدها وبين الإخوة والاخوات في البيع، ورخص بعض اهل العلم في التفريق بين المولدات الذين ولدوا في ارض الإسلام، والقول الاول اصح. وروي عن إبراهيم النخعي انه فرق بين والدة وولدها في البيع، فقيل له: في ذلك، فقال: إني قد استاذنتها بذلك، فرضيت.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: وَهَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ، فَبِعْتُ أَحَدَهُمَا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَلِيُّ، مَا فَعَلَ غُلَامُكَ؟ " فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " رُدَّهُ رُدَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ فِي الْبَيْعِ، وَيُكْرَهُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْوَالِدةِ وَوَلَدِهَا وَبَيْنَ الإِخْوَةَ وَالأَخَوَاتِ فِي الْبيع، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُوَلَّدَاتِ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي أَرْضِ الْإِسْلَامِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ، فَقِيلَ لَهُ: فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي قَدِ اسْتَأْذَنْتُهَا بِذَلِكَ، فَرَضِيَتْ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو غلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: علی! تمہارا غلام کیا ہوا؟، میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کو بیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا: اسے واپس لوٹا لو، اسے واپس لوٹا لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم بیچتے وقت (رشتہ دار) قیدیوں کے درمیان جدائی ڈالنے کو ناجائز کہا ہے،
۳- اور بعض اہل علم نے ان لڑکوں کے درمیان جدائی کو جائز قرار دیا ہے جو سر زمین اسلام میں پیدا ہوئے ہیں۔ پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے،
۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بیچتے وقت ماں اور اس کے لڑکے کے درمیان تفریق، چنانچہ ان پر یہ اعتراض کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے اس کی ماں سے اس کی اجازت مانگی تو وہ اس پر راضی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 46 (2249)، (تحفة الأشراف: 10285)، و مسند احمد (1/102) (ضعیف) (میمون کی ملاقات علی رضی الله عنہ سے نہیں ہے، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن ثبت مختصرا بلفظ آخر في صحيح أبي داود (2415)، ابن ماجة (2249)، صحيح أبي داود (2415)

قال الشيخ زبير على زئي: (1284) إسناده ضعيف /جه 2249
ميمون لم يدرك عليًا رضى الله عنه (د 2696) فالسند منقطع

   جامع الترمذي1284علي بن أبي طالبما فعل غلامك فأخبرته فقال رده رده
   سنن ابن ماجه2249علي بن أبي طالبما فعل الغلامان قلت بعت أحدهما قال رده
   بلوغ المرام678علي بن أبي طالب أدركهما فارتجعهما ،‏‏‏‏ ولا تبعهما إلا جميعا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1284 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1284  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(میمون کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے،
لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1284   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 678  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں دو غلام بھائیوں کو فروخت کروں۔ میں نے ان دونوں کو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں کو جا کر واپس لے آؤ اور اکٹھا ہی فروخت کرو۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں اور اسے ابن خزیمہ، ابن جارود، ابن حبان، حاکم، طبرانی اور ابن قطان نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 678»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، البيوع، باب ما جاء في كراهية الفرق بين الأخوين، حديث:1284، وابن ماجه، التجارات، حديث:2249، وأحمد:1 /97، 126، والحاكم:2 /55.* وقال أبوداود، حديث"2696 "ميمون لم يدرك عليًا".»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
مسند احمد کے محققین نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۵۵) 2.سابقہ حدیث ماں اور بچے میں جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے‘ خواہ وہ علیحدگی بیع کے ذریعے سے ہو یا ہبہ کی صورت میں یا دھوکے بازی سے الگ کرنے وغیرہ کی شکل میں۔
3. والدہ کے لفظ میں والد بھی شامل ہے‘ یعنی ماں سے جدا کیا جائے نہ باپ سے۔
اور یہ حدیث بھائیوں کے درمیان تفریق و جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور قیاس کے ذریعے سے ان کے ساتھ دوسرے ذوی الارحام کو بھی ملا لیا گیا ہے‘ مگر امام شوکانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ذوی الارحام کو اس میں شامل کرنا محل نظر ہے کیونکہ ان کی جدائی سے وہ مشقت و پریشانی نہیں ہوتی جو ماں اور بچے کے مابین یا بھائی بھائی کے درمیان جدائی سے حاصل ہوتی ہے‘ لہٰذا دونوں میں واضح فرق کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے ساتھ نہ ملایا جائے اور صرف نص پر توقف کیا جائے۔
4. یہ بات بھی معلوم رہے کہ تفریق کی حرمت چھوٹے بچے کے ساتھ مخصوص ہے۔
بڑے کی جدائی کب جائز ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔
باعتبار دلیل‘ راجح یہ ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں‘ اس وقت تفریق حرام نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 678   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.