سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
28. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ
28. باب: جسے بیع میں دھوکہ دے دیا جاتا ہو وہ کیا کرے؟
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1250
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن حماد البصري، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، ان رجلا كان في عقدته ضعف، وكان يبايع، وان اهله اتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، احجر عليه، فدعاه نبي الله صلى الله عليه وسلم فنهاه، فقال: يا رسول الله، إني لا اصبر عن البيع، فقال: " إذا بايعت فقل: هاء وهاء، ولا خلابة ". قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابن عمر. وحديث انس حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم، وقالوا: الحجر على الرجل الحر في البيع والشراء إذا كان ضعيف العقل، وهو قول: احمد، وإسحاق، ولم ير بعضهم ان يحجر على الحر البالغ.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، وَكَانَ يُبَايِعُ، وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْجُرْ عَلَيْهِ، فَدَعَاهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَالَ: " إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ: هَاءَ وَهَاءَ، وَلَا خِلَابَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: الْحَجْرُ عَلَى الرَّجُلِ الْحُرِّ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ إِذَا كَانَ ضَعِيفَ الْعَقْلِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحْجَرَ عَلَى الْحُرِّ الْبَالِغِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کر سکوں گا، آپ نے فرمایا: (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ آزاد شخص کو خرید و فروخت سے اس وقت روکا جا سکتا ہے جب وہ ضعیف العقل ہو، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض لوگ آزاد بالغ کو بیع سے روکنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں ۳؎۔

وضاحت:
۱؎: یہ حبان بن منقذ بن عمرو انصاری تھے اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سر میں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑا تھا پتھر سے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اور عقل میں کمزوری آ گئی تھی اور زبان میں بھی تغیر آ گیا تھا لیکن ابھی تمیز کے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔
۲؎: مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ و فریب نہیں کیونکہ دین تو نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔
۳؎: ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 68 (3501)، سنن النسائی/البیوع 12 (4490)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 24 (2354)، (تحفة الأشراف: 1175)، و مسند احمد 3/217) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2354)

   جامع الترمذي1250أنس بن مالكبايعت فقل هاء وهاء ولا خلابة
   سنن أبي داود3501أنس بن مالكإن كنت غير تارك البيع فقل هاء وهاء ولا خلابة
   سنن ابن ماجه2354أنس بن مالكإذا بايعت فقل ها ولا خلابة
   سنن النسائى الصغرى4490أنس بن مالكإذا بعت فقل لا خلابة

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1250 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1250  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حبان بن منقذ بن عمروانصاری تھے اورایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سرمیں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ لڑاتھا پتھرسے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اورعقل میں کمزوری آ گئی تھی اورزبان میں بھی تغیرآ گیا تھا لیکن ابھی تمیزکے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔

2؎:
مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ وفریب نہیں کیونکہ دین تونصیحت وخیرخواہی کا نام ہے۔

3؎:
ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1250   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4490  
´خرید و فروخت میں دھوکہ کھا جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کم عقلی کا شکار تھا اور تجارت کرتا تھا، اس کے گھر والوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے نبی! آپ اسے تجارت کرنے سے روک دیجئیے، تو آپ نے اسے بلایا اور اسے اس سے روکا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں تجارت سے باز نہیں آ سکتا، تو آپ نے فرمایا: جب بیچو تو کہو: فریب و دھوکہ نہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4490]
اردو حاشہ:
(1) تجارت اور سوداگری میں دھوکا دینا، شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ایسا تاجر جو لوگوں کو خرید و فروخت میں دھوکا دیتا ہے، وہ ان کا مال باطل طریقے سے کھاتا ہے اور یہ حرام ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک فریق کی طرف سے بھی کوئی ایسی شرط ہو جو شرعاً جائز ہو تو وہ معتبر ہو گی۔ نہ صرف شرط معتبر ہو گی بلکہ اس کی وجہ سے سودا فسخ اور ختم کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل ہو گا۔
(3) یہ حدیث اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خبر واحد قطعی طور پر حجت ہے۔
(4) معقول عذر کی وجہ سے بالغ شخص پر تجارت نہ کرنے کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
(5) دھوکا نہیں ہونا چاہیے گویا کہا جا رہا ہے: اگر دھوکا ہو گا تو سودا واپس ہو گا۔ اگر صراحتاً واپسی کی شرط لگانے سے واپسی ہو سکتی ہے تو کنایۃً واپسی کی شرط سے واپسی میں کیا حرج ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4490   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2354  
´جو شخص اپنا مال برباد کرتا ہو تو اس پر حجر (پابندی لگانا) درست ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خرید و فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا، اور اس کو خرید و فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ خرید و فروخت نہ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جب خرید و فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2354]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
«لاخلابة» دھوکا نہیں۔
کامطلب یہ ہے کہ اگر اس بیع میں تم نے مجھ سے دھوکا کیا تو معلوم ہونے پر میں بیع فسخ کرنے کا حق رکھتا ہوں۔

(2)
انہیں دھوکا اس لیے لگ جاتا تھا کہ ایک بار سر میں شدید زخم آنے کی وجہ سے ان کی عقل متائر ہو گئی تھی۔

(3)
جس شخص کی عقل درست نہ ہو اسے خرید وفروخت سے حکماً روکا جا سکتا ہے اور اس کی بیع کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے اس کے بعد جوشخص اس سے لین دین کرے گا وہ خود ذمہ دار ہو گا کیونکہ وارث اس کے لین دین کو کالعدم قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2354   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.