(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا حميد الطويل، عن بكر بن عبد الله المزني، عن ابي رافع، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم لقيه وهو جنب، قال: فانبجست اي فانخنست فاغتسلت، ثم جئت، فقال: " اين كنت او اين ذهبت؟ " , قلت: إني كنت جنبا قال: " إن المسلم لا ينجس ". قال: وفي الباب عن حذيفة، وابن عباس. قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حسن صحيح، ومعنى قوله فانخنست يعني: تنحيت عنه، وقد رخص غير واحد من اهل العلم في مصافحة الجنب ولم يروا بعرق الجنب والحائض باسا.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ، قَالَ: فَانْبَجَسْتُ أَيْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ: " أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ؟ " , قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا قَالَ: " إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ فَانْخَنَسْتُ يَعْنِي: تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، وَقَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ وَلَمْ يَرَوْا بِعَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ بَأْسًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں تھے؟ یا: کہاں چلے گئے تھے (راوی کو شک ہے)۔ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں حذیفہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ان کے قول «فانخنست» کے معنی «تنحیت عنہ» کے ہیں ”یعنی میں نظر بچا کر نکل گیا“، ۴- بہت سے اہل علم نے جنبی سے مصافحہ کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ جنبی اور حائضہ کے پسینے میں کوئی حرج نہیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اور جب پسینے میں کوئی حرج نہیں تو بغیر پسینے کے بدن کی جلد (سے پاک آدمی کے ہاتھ اور جسم کے ملنے) میں بدرجہ اولیٰ کوئی حرج نہیں۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 231
´ جنبی مصافحہ کرے اس کے حکم کا بیان` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَأَنَا جُنُبٌ، فَاخْتَنَسْتُ، فَذَهَبْتُ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ: أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا، فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ . فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ، وقَالَ فِي حَدِيثِ بِشْرٍ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنِي بَكْرٌ . . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ کے ایک راستے میں مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہو گئی، میں اس وقت جنبی تھا، اس لیے پیچھے ہٹ گیا اور (وہاں سے) چلا گیا، پھر غسل کر کے واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوہریرہ! تم کہاں (چلے گئے) تھے؟“، میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا، اس لیے ناپاکی کی حالت میں آپ کے پاس بیٹھنا مجھے نامناسب معلوم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! مسلمان نجس نہیں ہوتا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يُصَافِحُ: 231]
فوائد و مسائل: ➊ جنبی سے مساس و مصافحہ بلاشبہ جائز ہے۔ ➋ اس کا پسینہ اور لعاب بھی پاک ہیں۔ ➌ مسلمان کا ناپاک ہونا ایک حکمی اور عارضی کیفیت ہوتی ہے جسے «مُحدِث» کہتے ہیں، میم کے ضمہ اور ”دال“ کے کسرہ کے ساتھ، اس کے بالمقابل مشرک معنوی طور پر نجس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ»[9-التو بة: 28] ➍ غسل جنابت کو مؤخر کیا جا سکتا ہے، مگر افضل و اولیٰ یہ ہے کہ اس دوران میں وضو کر لے۔ جیسے کہ سنن ابی داود گزشتہ باب 89 میں بیان ہوا ہے۔ ➎ سبحان اللہ کا کلمہ بطور تعجب بھی استعمال ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 231
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 283
´جنبی کا پسینہ اور بیشک مسلمان ناپاک نہیں ہوتا` «. . . قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ فِي بَعْضِ طَرِيقِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ جُنُبٌ، فَانْخَنَسْتُ مِنْهُ فَذَهَبَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: كُنْتُ جُنُبًا، فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ وَأَنَا عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ، فَقَالَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ " . . . .» ”. . . ہم سے بکر بن عبداللہ نے ابورافع کے واسطہ سے، انہوں نے ابوہریرہ سے سنا کہ مدینہ کے کسی راستے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنابت کی حالت میں تھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں پیچھے رہ کر لوٹ گیا اور غسل کر کے واپس آیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے ابوہریرہ! کہاں چلے گئے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں جنابت کی حالت میں تھا۔ اس لیے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغیر غسل کے بیٹھنا برا جانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ سبحان اللہ! مومن ہرگز نجس نہیں ہو سکتا۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ عَرَقِ الْجُنُبِ وَأَنَّ الْمُسْلِمَ لاَ يَنْجُسُ:: 283]
� تشریح: یعنی ایسا نجس نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ بیٹھا بھی نہ جا سکے۔ اس کی نجاست عارضی ہے جو غسل سے ختم ہو جاتی ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ جنبی کا پسینہ بھی پاک ہے۔ کیونکہ بدن پاک ہے تو بدن سے نکلنے والا پسینہ بھی پاک ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 283
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 285
´جنبی گھر سے باہر نکل سکتا اور بازار وغیرہ جا سکتا ہے` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جُنُبٌ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّى قَعَدَ، فَانْسَلَلْتُ فَأَتَيْتُ الرَّحْلَ فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ جِئْتُ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَقَالَ: أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هِرٍّ؟ فَقُلْتُ لَهُ: فَقَالَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أَبَا هِرٍّ، إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَنْجُسُ " . . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ اس وقت میں جنبی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں آہستہ سے اپنے گھر آیا اور غسل کر کے حاضر خدمت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے ابوہریرہ! کہاں چلے گئے تھے، میں نے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! مومن تو نجس نہیں ہوتا۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْجُنُبُ يَخْرُجُ وَيَمْشِي فِي السُّوقِ وَغَيْرِهِ:: 285]
� تشریح: اس حدیث کی اور باب کی مطابقت بھی ظاہر ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حالت جنابت میں راہ چلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 285
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 285
285. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات بحالت جنابت ہوئی۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ساتھ چلنے لگا، یہاں تک آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے اٹھا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچا۔ وہاں میں نے غسل کیا، پھر حاضر خدمت ہوا، آپ وہیں تشریف فر تھے۔ آپ نے فرمایا:”ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟“ میں نے آپ سے عرض کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ”ابوہریرہ! سبحان اللہ! بلاشبہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:285]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی اور باب کی مطابقت بھی ظاہر ہے کہ ابوہریرہ ؓ حالت جنابت میں راہ چلتے ہوئے آنحضرت ﷺ ملے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 285
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 270
´جنبی کو چھونے اور اس کے ساتھ بیٹھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ میں ان سے ملے، اور وہ اس وقت جنبی تھے، تو وہ چپکے سے نکل گئے، اور (جا کر) غسل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں پایا، تو جب وہ آئے، تو آپ نے پوچھا ”ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟“ تو انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! آپ اس حالت میں ملے تھے کہ میں جنبی تھا، تو میں نے ناپسند کیا کہ بغیر غسل کئے آپ کے ساتھ بیٹھوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! ۱؎ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔“[سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 270]
270۔ اردو حاشیہ: ➊ «سبحان اللہ» کلمہ تعجب ہے۔ گویا آپ نے ان کے طرز عمل اور تخیل پر تعجب کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے جنابت کے فوراًً بعد غسل کرنا ضروری نہیں ورنہ آپ ان کے کھسکنے پر تعجب نہ فرماتے بلکہ ان کی تحسین فرماتے۔ ➋ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حد درجے تک آپ کی عزت و احترام کرتے تھے۔ ➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی صحابی کو گم پاتے تو فوراًً اس کے متعلق دریافت فرماتے تھے۔ اس سے ہمیں یہ رہنمائی ملی کہ قوم کے بڑے کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے ماتحتوں میں سے کسی کو گم پائے تو فوری طور پر اس کے متعلق دریافت کرے اور اگر وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہے تو اس کے دکھ درد کا شریک بنے۔ اور اس کی رہنمائی کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 270
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود231
12- مردہ انسان کے طاہر یا نجس ہونے میں اختلاف ہے۔ (احناف) انہوں نے بعض صحابہ مثلاًً حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ کے فتاوی پر عمل کرتے ہوئے مردہ انسان کو نجس قرار دیا ہے۔ (جمہور) مردہ انسان پاک ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ» ”مسلمان نجس نہیں ہوتا۔“[ابي داود 231]۱؎ (راجح) مردہ آدمی نجس نہیں ہوتا کیونکہ حدیث میں ہے: «الْمُسْلِمُ لَا يَنْجُسُ حَيًّا وَلَا مَيِّتًا» مسلمان نہ تو زندہ حالت میں نجس ہوتا ہے اور نہ ہی مردہ حالت میں۔“[صحیح بخاری قبل الحديث 1253]۲؎
اور جن دلائل سے مردار کا نجس ہونا ثابت کیا جاتا ہے ان سے زیادہ سے زیادہ صرف مردار کھانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ مثلاًً: «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ»[5-المائدة:3]
اور یہ ضروری نہیں جو چیز حرام ہے وہ نجس و پلید بھی ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ»[4-النساء:23] ”تمہاری مائیں تم پر حرام کر دی گئیں ہیں۔“[السيل الجرار 40/1] ------------------ ۱؎[فتح القدير 72/1، الشرح الصغير 44/1، مغني المحتاج 78/1، كشاف القناع 222/1، المهذب 47/1] ۲؎[صحيح بخاري قبل الحديث 1253، بخاري مع الفتح 127/3، المغني لابن قدامة 63/1]
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 152
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث534
´جنبی سے مصافحہ کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جنبی تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے کسی راستے میں انہیں ملے، تو وہ چپکے سے نکل لیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غائب پایا، جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟“، کہا: اللہ کے رسول! آپ سے ملاقات کے وقت میں جنبی تھا، اور بغیر غسل کئے آپ کی محفل میں بیٹھنا مجھے اچھا نہیں لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن ناپاک نہیں ہوتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 534]
اردو حاشہ: (1) جنابت ایک حکمی نجاست ہے حسی نہیں یعنی اس حالت میں انسان پر شرعی طور پر کچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں وہ اس طرح ناپاک نہیں ہوجاتا جس طرح ظاہری نجاست لگ جانے سے جسم یا لباس کا وہ حصہ ناپاک ہوجاتا ہے جہاں نجاست لگی ہو۔
(2) مومن کا بدن پاک ہوتا ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ اس لیے جنبی سے مصافحہ کرنا، اس کے پاس بیٹھنا، اس کا کھانا پینا سب جائز ہے۔ لیکن جنبی کے لیے کھانے پینے کے لیے وضو کرلینا مناسب ہےبلکہ اسی حالت میں سونا چاہے تب بھی وضو کرلینا افضل ہے تاکہ مکمل طھارت نہیں تو جزوی طہارت ہی حاصل ہوجائے۔ (صحیح البخاری، الغسل، باب نوم الجنب، حدیث: 287)
(3) بزرگوں اور استادوں کو چاہیے کہ اپنے چھوٹوں اور شاگردوں کا خیال رکھیں ان کے حالات سے ضروری حد تک باخبر رہیں تاکہ حسب ضرورت ان کی مدد اور رہنمائی کرسکیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 534
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:283
283. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ انہیں مدینے کے راستے میں ملے جبکہ وہ (ابوہریرہ) اس وقت بحالت جنابت تھے، چنانچہ (وہ کہتے ہیں:) میں آپ کے پاس سے کھسک گیا اور دور جا کر غسل کیا۔ پھر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟“ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا، لہذا مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کے پاس ناپاک حالت میں بیٹھوں۔ آپ نے فرمایا: ”سبحان اللہ! مسلمان نجس نہیں ہوتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:283]
حدیث حاشیہ: صفحہ 528 ٹو کمپوز
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 283
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:285
285. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات بحالت جنابت ہوئی۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ساتھ چلنے لگا، یہاں تک آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے اٹھا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچا۔ وہاں میں نے غسل کیا، پھر حاضر خدمت ہوا، آپ وہیں تشریف فر تھے۔ آپ نے فرمایا:”ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟“ میں نے آپ سے عرض کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ”ابوہریرہ! سبحان اللہ! بلاشبہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:285]
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک جنبی آدمی غسل کیے بغیر ہرکام میں مصروف ہو سکتا ہے۔ حضرت عطاء کے قول کو بطوراستدلال پیش کیا ہے لیکن کچھ حضرات نے اس سلسلے میں حضرت عطاء کی مخالفت کی ہے، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حسن بصری کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ سب کاموں سے پہلے وضو کرنے کو مستحب قراردیتے تھے۔ حدیث انس سے حضرت عطاء کے موقف کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں وضو کرنے کاذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري: 508/1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بصری ؒ وغیرہ وضو یا غسل سے پہلے بحالت جنابت دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کو پسند نہ کرتے تھے۔ جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جنابت سے قبل جنسی آدمی کو چلنے پھرنے کی ممانعت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ایک بیوی کے پاس سے دوسری بیوی کے پاس بحالت جنابت تشریف لے گئے، پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے گھر مسجد کے چاروں طرف واقع تھے۔ جب ایک حجرے سے دوسرے حجرے تک جانے کی اجازت ہے تو محلے میں بھی چلنے پھرنے کی اجازت ہوگی، پھر محلے میں چلنا اور بازار میں جانا دونوں برابر ہیں۔ جب آمدورفت کاجواز ہے تو کھانے پینے میں کیا مضائقہ ہوسکتا ہے۔ اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں تو یہ بات اورواضح ہوگئی، کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے مدینے کے کسی راستے میں ملے جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ اس وقت حالت جنابت میں تھے۔ اس سے جنابت کی حالت میں بازار کی آمدورفت ثابت ہوئی۔ 2۔ علامہ عینی ىؒ لکھتے ہیں کہ عام فقہاء کا یہ موقف ہے کہ جنبی آدمی بازار میں جاسکتا ہے اور آمدورفت رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم مصنف ابن ابی شیبہ (113۔ 112/1) میں ہے کہ حضرت علی ؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت ابن عمر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت شداد بن اوس ؓ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ، مجاہد ؒ، ابن سیرین ؒ، زہری ؒ، محمد بن علی ؒ، اور امام نخعی ؒ جنابت کے بعد وضو سے پہلے نہ کچھ کھاتے اور نہ گھر ہی سے باہر نکلتے۔ اسی طرح امام بیہقی ؒ نے کتاب الطہارت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، عبداللہ بن عمروؓ، حضرت عطا ؒ اور حسن بصری ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ حضرات بھی وضو کے بغیر مشاغل میں مصروف ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔ (عمدة القاري: 74/3) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کا قول بیان جواز کے لیے پیش کیا ہے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ جنابت کے بعد وضو کرلیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ بھی نقل وحرکت کے علاوہ کوئی فعل بحالت جنابت ثابت نہیں۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بڑی عمدہ بات لکھی ہے، فرماتے ہیں: ”جسے رات کو جنابت لاحق ہو، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ وضو کرو اور شرم گاہ کو دھولو اور پھر سوجاؤ۔ میں کہتا ہوں کہ جنابت چونکہ فرشتوں کی صفات وطبائع کے منافی ہے اور وہ ہروقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں، اس لیے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہی پسندہے کہ وہ بحالت جنابت یوں ہی آزادی وبےپروائی سے اپنی ضروریات، سونے، کھانے پینے میں مصروف نہ ہو۔ اگرطہارت کبریٰ (غسل) نہ کرسکے تو کم از کم طہارت صغریٰ (وضو) ہی کرلے، کیونکہ فی الجملہ طہارت کا حصول دونوں سے ہوجاتا ہے، اگرچہ شارع نے دونوں کو، جداجدا احداث پر تقسیم کردیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة: 557۔ 558/1) اس بنا پر بہتر ہے کہ جنبی آدمی کم از کم وضو کرلے۔ اگرچہ جواز کی حد تک وضو کے بغیر رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 285