(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا حميد وهو الطويل، قال: حدث الحسن، عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا جلب ولا جنب ولا شغار في الإسلام، ومن انتهب نهبة فليس منا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: وفي الباب، عن انس، وابي ريحانة، وابن عمر، وجابر، ومعاوية، وابي هريرة، ووائل بن حجر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَهُوَ الطَّوِيلُ، قَالَ: حَدَّثَ الْحَسَنُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي رَيْحَانَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں نہ «جلب» ہے، نہ «جنب»۱؎ اور نہ ہی «شغار»، اور جو کسی کی کوئی چیز اچک لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس، ابوریحانہ، ابن عمر، جابر، معاویہ، ابوہریرہ، اور وائل بن حجر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: «جلب» اور «جنب» کے دو مفہوم ہیں: ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑ دوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں «جلب» یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانور لے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جا کر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃ اپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تاکہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتا پھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی «جلب» میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اور دوسری صورت «جنب» میں زکاۃ وصول کرنے کو۔ لہٰذا یہ دونوں درست نہیں۔ گھوڑ دوڑ میں «جلب» اور «جنب» ایک دوسرے کے مترادف ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہو جائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو جائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔ اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے، لہٰذا اس معنی میں بھی «جلب» اور «جنب» درست نہیں ہے (اور «شغار» کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 70 (2581)، مقتصرا علی قولہ ”لا جلب ولا جنب“ سنن ابی داود/ النکاح 60 (3337)، والخیل 15 (3620)، و16 (3621)، سنن ابن ماجہ/الفتن 3 (3935)، مقتصرا علی قولہ ”من انتہب…“ (تحفة الأشراف: 10793) مسند احمد (4/429، 439) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2947 / التحقيق الثاني)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1123
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جلب اور جنب کے دومفہوم ہیں: ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑدوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانورلے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جاکر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃاپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تا کہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتا پھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی جلب میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اوردوسری صورت جنب میں زکاۃ وصول کرنے کو۔ لہٰذا یہ دونوں درست نہیں۔ گھوڑدوڑ میں جلب اورجنب ایک دوسرے کے مترادف ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوجائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔ اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے، لہٰذا اس معنی میں بھی جلب اور جنب درست نہیں ہے (اور شغار کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آرہی ہے۔ )
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1123
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3337
´نکاحِ شغار (یعنی بیٹی یا بہن کے مہر کے بدلے دوسرے کی بہن یا بیٹی سے شادی کرنے کی ممانعت) کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اسلام میں نہ «جلب» ہے نہ «جنب» ہے اور نہ ہی «شغار» ہے، اور جس کسی نے کسی طرح کا لوٹ کھسوٹ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۱؎۔“[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3337]
اردو حاشہ: (1) جَلبَ اور جَنَبَ دواصلاحات ہیں جو زکاۃ میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور گھوڑ دوڑ میں بھی۔ زکاۃ میں جلب یہ ہے کہ زکاۃ والا لوگوں کو مجبور کرے کہ اپنے زکاۃ والے جانور میرے دفتر یا مرکز میں لاؤ تاکہ میں ان کا حساب لگا کر زکاۃ وصول کروں۔ اور جنب یہ ہے کہ زکاۃ لینے والا لوگوں کے ہاں آئے تو وہ اپنے جانور ادھر ادھر چرنے کے لیے بھی دیں اور انہیں قصداً بکھیر دیں۔ یہ دونوں صورتیں منع ہیں کیونکہ پہلی صورت میں عوام الناس اور دوسری صورت میں زکاۃ لینے والے افسر کو ناحق تکلیف ہوگی۔ بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ زکاۃ لینے والا جانوروں کے پانی اور رہائش کی جگہ پر جا کر ان کا حساب لگا کر زکاۃ وصول کرے اور جانوروں والے اس دن جانوروں کو ان کے باڑوں میں رکھیں تاکہ فریقین میں سے کوئی بھی تنگ نہ ہو۔ گھوڑ دور میں جلب یہ ہے کہ گھوڑ سوار راستے میں کسی آدمی کو مقرر کرے کہ جب میرا گھوڑا تیرے پاس سے گزرے تو اسے ڈرا دینا تاکہ یہ مزید تیز ہوجائے اور دوڑ جیت لے۔ جنب یہ ہے کہ اپنے گھوڑے کے ساتھ ایک خالی گھوڑا بھی لے جاؤ تاکہ دوڑ کے دوران میں اگر ایک گھوڑا سست پڑجائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو جائے تاکہ دوڑ جیت سکے۔ چونکہ ان دونوں صورتوں (جلب اور جنب) میں دھوکا اور فراڈ ہے‘ لہٰذا گھوڑ دوڑ میں ان سے روک دیا گیا۔ (2)”شغار جائز نہیں“ یعنی ایسا نکاح (راجح مسلک کے مطابق) منعقد ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ عقد فاسد ہے۔ اسے توڑنا ضروری ہے۔ (3)”ہم میں سے نہیں“ یعنی اس مسئلے میں اہل ایمان اور اہل اسلام کے طریقے پر نہیں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اب وہ بالکل مسلمان ہی نہیں رہا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3337
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3620
´جلب کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں نہ تو جلب ہے اور نہ جنب ہے اور نہ ہی شغار ہے اور جس نے لوٹ کھسوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3620]
اردو حاشہ: جلب اور جبب کی تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:3337۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3620
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3621
´جنب (پہلو میں ہونے) کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں نہ جلب ہے نہ جنب اور نہ ہی شغار ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3621]
اردو حاشہ: نکاح وٹہ سے مراد وہ نکاح ہے جس میں دونوں طرف سے حق مہر نہ ہو۔ اگر دونوں طرف سے مہر مقرر ہو تو پھر جائز ہے اگر چہ اس کے نقصانات ڈھکے چھپے نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3621
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2581
´گھوڑ دوڑ میں کسی کو اپنے گھوڑے کے پیچھے رکھنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «جلب» اور «جنب» نہیں ہے۔“ یحییٰ نے اپنی حدیث میں «في الرهان»(گھوڑ دوڑ کے مقابلہ میں) کا اضافہ کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2581]
فوائد ومسائل: کتاب الزکواۃ میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس کے لئے دیکھئے۔ (حدیث 1591) مگر یہاں مراد یہ ہے کہ گھوڑ دوڑ میں کوئی شخص اپنے گھوڑے کے ساتھ کسی اور شخص کو بھی دوڑائے جو اس کے گھوڑے کو ڈانٹتا جائے۔ اور مقصد یہ ہوکہ اس کا گھوڑا آگے بڑھ کر جیت جائے اسے جلب کہتے ہیں۔ اور جنب یہ ہے کہ دوڑ میں اپنے گھوڑے کے پہلو بہ پہلو ایک اورگھوڑا رکھے تاکہ جب دیکھے کہ پہلا گھوڑا تھک گیا ہے تو جلدی سے دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوکر مقابلہ جیتنے کی کوشش کرے۔ یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2581