ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی
۱؎ حاصل نہ کر لی جائے، اور کنواری
۲؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے
“ ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، ابن عباس، عائشہ اور عرس بن عمیرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ
«ثیبہ» (شوہر دیدہ) کا نکاح اس کی رضا مندی حاصل کیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر کر دی اور اسے وہ ناپسند ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک وہ نکاح منسوخ ہو جائے گا،
۴- کنواری لڑکیوں کے باپ ان کی شادی ان کی اجازت کے بغیر کر دیں تو اہل علم کا اختلاف ہے۔ کوفہ وغیرہ کے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ باپ اگر کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کر دے اور وہ بالغ ہو اور پھر وہ اپنے والد کی شادی پر راضی نہ ہو تو نکاح منسوخ ہو جائے گا
۴؎،
۵- اور بعض اہل مدینہ کہتے ہیں کہ کنواری کی شادی اگر باپ نے کر دی ہو تو درست ہے گو وہ اسے ناپسند ہو، یہ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے
۵؎۔
● صحيح البخاري | 5136 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت |
● صحيح البخاري | 6970 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا كيف إذنها قال أن تسكت |
● صحيح البخاري | 6968 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح البكر حتى تستأذن لا الثيب حتى تستأمر فقيل يا رسول الله كيف إذنها قال إذا سكتت |
● صحيح مسلم | 3473 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال أن تسكت |
● جامع الترمذي | 1107 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الثيب حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت |
● سنن أبي داود | 2092 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر إلا بإذنها قالوا يا رسول الله وما إذنها قال أن تسكت |
● سنن النسائى الصغرى | 3267 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الثيب حتى تستأذن لا تنكح البكر حتى تستأمر قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال إذنها أن تسكت |
● سنن النسائى الصغرى | 3269 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الأيم حتى تستأمر لا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا يا رسول الله كيف إذنها قال أن تسكت |
● سنن ابن ماجه | 1871 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الثيب حتى تستأمر البكر حتى تستأذن وإذنها الصموت |
● بلوغ المرام | 837 | عبد الرحمن بن صخر | لا تنكح الأيم حتى تستأمر ، ولا تنكح البكر حتى تستأذن |
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1107
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رضامندی کا مطلب اذن صریح ہے۔
2؎:
کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔
3؎:
اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے،
عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔ 4؎:
ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بكراً أتت النبي ﷺ فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي ﷺ» ہے۔
5؎:
ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جوآگے آرہی ہے «الأیم أحق بنفسہامن ولیہا» کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے،
اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ (کنواری) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1107
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 837
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بیوہ عورت کا نکاح اس سے مشورہ لئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس سے اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے۔“ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی اجازت کیسے ہے؟ فرمایا ”اس کا خاموش رہنا۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 837»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاهما، حديث:5136، ومسلم، النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق.....، حديث:1419.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ شریعت کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے۔
وہ عورت جسے اسلام سے پہلے معاشرے میں کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا تھا‘ اسلام نے اسے پستی سے اٹھا کر بلند مقام پر پہنچایا ہے اور اس کی اہمیت کو دوبالا کیا ہے۔
شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو کجا اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت تک نہ تھی۔
سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے نکاح کر دیتے تھے۔
2.شریعت محمدیہ نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیدہ سے مشورہ ضرور کیا جائے اور کنواری سے اس کی اجازت حاصل کی جائے۔
3. شوہر دیدہ کی رضا ومشورے کے بغیر اس کا نکاح نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ولی اپنی سرپرستی میں اس کے مشورے اور اس کی رضامندی کے ساتھ اس کا نکاح کرے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 837
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3473
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر دیدہ کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علبہ وسلم! اس کی اجازت کی کیفیت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علبہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی خاموشی، (سکوت)۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3473]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(اَيْم)
کا اصل معنی ہے،
بے شوہر والی عورت جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ﴾ (اپنی بے شوہر والی عورتوں کی شادی کرو)
لیکن اس باب میں مذکورہ احادیث میں اس سے مراد ایسی عورت ہے جو شادی شدہ ہو اور شوہر کے ساتھ رہنے کے بعد کسی سبب سے خواہ وہ شوہر کا انتقال ہو یا طلاق و خلع بے شوہر ہو گئی ہو،
بعض روایات میں اس کو (اَلثَّيِِّبْ)
کا نام دیا گیا ہے،
ایسی عورت کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے کہ اس کی رائے اور مرضی معلوم کیے بغیر اس کی شادی نہ کی جائے اور یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رائے یا رضا مندی کا اظہار زبان سے یا واضح اشارے سے کرے،
اور کنواری لڑکی کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے،
لیکن دو شیزہ لڑکیوں کو جبکہ وہ شرم و حیاء سے متصف ہوں آزاد اور کھلی نہ ہوں زبان یا ا شارہ سے اجازت دینا مشکل ہوتا ہے اس لیے ان کی اجازت کے لیے ان کی خاموشی یا رضا مندی کا کوئی قرینہ یا اشارہ ہی کافی ہے،
اور یہ بات واضح ہے،
وہی لڑکی زبان سے یا سکوت سے رضا مندی کا اظہار کر سکتی ہے جو سن شعور و تمیز کو پہنچ چکی ہو،
اور سوچنے،
سمجھنےکی صلاحیت رکھتی ہو شادی کے مقصد اور مفہوم کو سمجھتی ہو لیکن اگر کوئی لڑکی ابھی نکاح و شادی کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے اور کسی مجبوری یا مصلحت کے تقاضہ کے تحت اس کی شادی کرنی ہے کوئی بہت اچھا اور مناسب رشتہ ملتا ہے اور ولی خیر خواہ اور ذمہ دارہے کسی خود غرض یا دنیوی مفاد کا حریص و لالچی نہیں ہے بلکہ بچی کی بہتری اور بھلائی کے جذبہ کے تحت اس کی شادی کرنا چاہتا ہے تو اپنی خیر خواہانہ صوابدید کے مطابق خود فیصلہ کر سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3473
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5136
5136. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے پوچھ نہ لیا جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے۔“ صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کنواری کی اجازت کس طرح ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(پیغام نکاح سن کر) اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5136]
حدیث حاشیہ:
خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور بعض اہلحدیث کا یہی قول معلوم ہو تا ہے۔
لیکن اکثر علماء نے یہ کہا ہے بلکہ اس پر اجماع ہو گیا ہے کہ کنواری چھوٹی (یعنی نابالغ لڑکی)
کا نکاح اس کا باپ کر سکتا ہے، اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے اور ثیبہ بالغہ کا نکاح اس کے پوچھے بغیر جائز نہیں اتفاقاً نہ باپ کو نہ اور کسی ولی کو۔
اب رہ گئی کنواری نابالغہ اور ثیبہ نابالغہ ان میں اختلاف ہے۔
کنواری نابالغہ سے بھی حنفیہ کے نزدیک اذن لینا چاہئے اور امام مالک اور امام شافعی اورہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک باپ کو اس سے اذن لینے کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح دادا کو بھی اگر باپ حاضر نہ ہو۔
حدیث سے اذن لینے کی تائید ہوتی ہے اور حضرت امام شوکانی نے اہلحدیث کا یہی مذہب قرار دیا ہے لیکن ثیبہ نابالغہ تو امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ باپ اس کا نکاح کر سکتا ہے اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اور امام شافعی اور امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ ثیبہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ شرم نہیں کرتی بہر حال نابالغ عورت کا نکاح اگر کیا جائے اور اس میں اجازت بھی لی جائے تو بعد بلوغ اس کو اختیار باقی رہتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5136
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6970
6970. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا امر نہ معلوم کر لیا جائے حتی کہ اس سے اجازت لے لی جائے۔“ لوگوں نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔“ اس حدیث کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں: اگر کسی نے دو جھوٹے گواہوں نے ذریعے سے یہ حیلہ کیا کہ کسی بیوہ سے اس کی اجازت سے نکاح کر لیا اور قاضی نے بھی اس کے حق میں فیصلہ کر دیا، حالانکہ مرد کو بخوبی علم ہے کہ اس نے عورت سے نکاح نہیں کیا، اس کے باوجود یہ نکاح جائز ہے اور اس مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6970]
حدیث حاشیہ:
ایسے جھوٹ اور حیلہ پر اس کے جواز کا فیصلہ دینے والے قاضی صاحب عنداللہ سخت ترین سزا کے حق دار ہوں گے۔
اللہ ایسے حیلہ سے ہمیں بچائے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6970
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6968
6968. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت نہ كيا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس امر نہ معلوم کر لیا جائے۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! کنواری لڑکی کی اجازت کیسے ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔“ بعض لوگ کہتے ہیں: اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس کا نکاح ہی کیا گیا لیکن کسی شخص نے حیلہ سازی کر کے دو جھوٹے گواہ بنا لیے کہ اس نے لڑکی سے اس کی رضا مندی سے نکاح کر لیا ہے اور قاضی نے اس نکاح کے متعلق فیصلہ دے دیا،حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ گواہی جھوٹ پر مبنی اور باطل ہے، اس کے باوجود اس لڑکی سے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ نکاح صحیح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6968]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں حیلہ سازوں کی مکاری اورفریب کاری اور دھوکا دہی سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کے نزدیک ایک معصوم کنواری لڑکی کے متعلق جھوٹے گواہ پیش کر دینے کے بعد اگر کسی نے عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا تو وہ کنواری لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس ”حرام کاری“ پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، حالانکہ حدیث کی رو سے نکاح کے لیے لڑکی کی اجازت ضروری ہے اس کے علاوہ سرپرست کی رضا مندی اور اجازت کی حیثیت بھی تسلیم شدہ ہے۔
لیکن حیلہ سازی کے ذریعے سے فریب کاری پر مبنی نکاح میں نہ سرپرست کی اجازت حاصل کی گئی اور نہ لڑکی ہی کی اجازت کو پیش نظر رکھا گیا، صرف دو جھوٹے گواہوں کی گواہی سے عدالت سے فیصلہ حاصل کر کے معصوم لڑکی کو بیوی بنا لیا گیا۔
شاید ان کے ہاں اس قسم کے ضمنی نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت اور لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
انھوں نے شمس الائمہ سرخسی کی المبسوط کے حوالے سے ایک روایت کا بھی کھوج لگایا ہے جس کی تفصیل یہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کسی شخص نے دو جھوٹے گواہ پیش کر دیے کہ میرا فلاح عورت سے نکاح ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گواہوں کی گواہی سے اس کے نکاح کا فیصلہ دے دیا، عورت نے بغرض عفت عرض کی:
امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرا قطعاً اس آدمی سے نکاح نہیں ہے بلکہ یہ گواہ بالکل جھوٹے ہیں، لیکن اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میں آپ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ اب آپ میرا عقد نکاح اس سے کر دیں تاکہ میں حقیقی طور پر اس کے لیے حلال ہو جاؤں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
ان دونوں گواہوں کی بنا پر میں نے جو نکاح کا فیصلہ دیا ہے یہی نکاح کے قائم مقام ہے لہذا نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔
مذکورہ روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ثابت ہی نہیں۔
اگر ثابت بھی ہو تو موقوف ہے۔
(فتح الباري: 428/12)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مرفوع حدیث کے مقابلے میں اس موقوف اثر کی کیا حیثیت ہے۔
2۔
بہرحال حیلہ سازوں کے یہ تمام سہارے مکڑی کے جالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6968
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6970
6970. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا امر نہ معلوم کر لیا جائے حتی کہ اس سے اجازت لے لی جائے۔“ لوگوں نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔“ اس حدیث کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں: اگر کسی نے دو جھوٹے گواہوں نے ذریعے سے یہ حیلہ کیا کہ کسی بیوہ سے اس کی اجازت سے نکاح کر لیا اور قاضی نے بھی اس کے حق میں فیصلہ کر دیا، حالانکہ مرد کو بخوبی علم ہے کہ اس نے عورت سے نکاح نہیں کیا، اس کے باوجود یہ نکاح جائز ہے اور اس مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6970]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسرے انداز سے حیلہ سازوں کی قلعی کھولتے ہیں۔
پہلی حدیث میں ایک معصوم کنواری کے متعلق ایک بدنام زمانہ حیلے کا ذکر کیا تھا اور اب ایک شوہر دیدہ عورت کے ساتھ مکروفریب کی چال کو بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دو جھوٹے گواہ عدالت میں پیش کر دے کہ میں نے فلاں عورت سے اس کے حکم کے مطابق نکاح کیا ہے اور عدالت بھی گواہی سن کر اس مرد کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ شوہر دیدہ عورت اس کی بیوی ہوگئی۔
اس کے ساتھ جماع کرنا اس کے لیے حلال ہوگا اور آخرت میں اس کے لیے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کیونکہ ایسے حالات میں عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے نافذ ہو جاتا ہے، حالانکہ ایسا مکار انسان، جھوٹے گواہ اور اس کے جواز کا فیصلہ دینے والا جج اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین سزا کے حقدار ہوں گے۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ اگرچہ پہلے نکاح نہیں تھا لیکن قاضی کا فیصلہ کرنا گویا نکاح کرنا ہے، یعنی قاضی کو ولایت نکاح حاصل ہے اور اس نے اپنا اختیار استعمال کر کے فیصلہ دیا ہے جو ہر اعتبار سے نافذ ہوگا۔
2۔
ان کے ہاں معاملات کی دو قسمیں ہیں:
ایک املاک مرسلہ اور دوسرے عقود وغیرہ۔
دوسری قسم میں قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی طور پرنافذ ہو جائے گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جب میں کسی کی چرب زبانی کی بنا پر ا سکے حق میں فیصلہ دے دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔
“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قطعی فرمان دونوں قسم کے معاملات کے لیے ہے، لہذا عدالتی فیصلہ جھگڑا نمٹانے کے لیے ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی طور پر اسے نافذ کرنا سینہ زوری ہے۔
دراصل اس قسم کے فیصلے ہی اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں اور جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے ہین کاش کہ حیلہ گر حضرات ہوش کے ناخن لیں اور باطل کا دفاع کرنے کے بجائے حق بات کو اختیار کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6970