اس سند سے بھی سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے،
۲- ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو سوائے اس کے جو عبدالاعلیٰ سے مروی ہے انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے اور سعید نے قتادہ سے مرفوعاً روایت کی ہے،
۳- اور عبدالاعلیٰ سے سعید بن ابی عروبہ کے واسطے سے یہ موقوفا بھی مروی ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو ابن عباس کے قول سے مروی ہے کہ بغیر گواہ کے نکاح نہیں، خود ابن عباس کا قول ہے،
۴- اسی طرح سے اور کئی لوگوں نے بھی سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح کی روایت موقوفاً کی ہے،
۵- اس باب میں عمران بن حصین، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۶- صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں۔ پہلے کے لوگوں میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن متاخرین اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے،
۷- اہل علم میں اس سلسلے میں اختلاف ہے جب ایک دوسرے کے بعد گواہی دے یعنی دونوں بیک وقت مجلس نکاح میں حاضر نہ ہوں تو کوفہ کے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ نکاح اسی وقت درست ہو گا جب عقد نکاح کے وقت دونوں گواہ ایک ساتھ موجود ہوں،
۸- اور بعض اہل مدینہ کا خیال ہے کہ جب ایک کے بعد دوسرے کو گواہ بنایا گیا ہو تو بھی جائز ہے جب وہ اس کا اعلان کر دیں۔ یہ مالک بن انس وغیرہ کا قول ہے۔ اسی طرح کی بات اسحاق بن راہویہ نے بھی کہی ہے جو اہل مدینہ نے کہی ہے،
۹- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نکاح میں ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت جائز ہے، یہ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔