الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2582
2582. عزرہ بن ثابت انصاری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ثمامہ بن عبداللہ کے پاس گیا تو انھوں نے مجھے خوشبو کا تحفہ دیا اور کہا کہ حضرت انس ؓ خوشبو رد نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے حضرت انس ؓ کے حوالے سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ بھی خوشبو واپس نہیں کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2582]
حدیث حاشیہ:
(1)
جامع ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تین چیزیں واپس نہ کی جائیں:
تکیہ، تیل اور دودھ۔
“ (جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث: 2790)
امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے مذکورہ حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حدیث میں تیل سے مراد خوشبو ہے۔
آپ نے اسے واپس نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ اس کے دینے میں آسانی اور اس کا فائدہ بھی زیادہ ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”خوشبو کا اپنے پاس رکھنا آسان اور اس کی مہک بہترین اور عمدہ ہوتی ہے۔
“ (صحیح مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، حدیث: 5883(2253)
لیکن اس روایت میں طیب کے بجائے "ریحان" کے الفاظ ہیں۔
بہرحال لفظ طیب محفوظ اور زیادہ قرین قیاس ہے۔
(فتح الباري: 258/5) (2)
خوشبو اگرچہ معمولی چیز ہے، تاہم اسے واپس کرنے سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس نہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی سی بات پر بڑا نقصان کر لیا جائے، نیز یہ بات دلداری اور حوصلہ افزائی کے بھی خلاف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2582
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5929
5929. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ خوشبو کو رد نہیں کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ نبی ﷺ بھی خوشبو کو رد نہیں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5929]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی شخص خوشبو کا تحفہ پیش کرتا تو آپ اسے خوشی سے قبول کرتے اور اسے رد نہ کرتے تھے کیونکہ آپ کو اس کی ہمیشہ ضرورت رہتی تھی۔
آپ فرشتوں سے سرگوشی کرتے تھے، ایسے حالات میں آپ کا صاف ستھرا اور پاک رہنا انتہائی ضروری تھا۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جسے خوشبو پیش کی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے کیونکہ اس کی مہک عمدہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی بوجھ بھی نہیں ہوتا۔
“ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4172) (2)
خوشبودار پھول یا عطر کوئی بڑا بھاری بوجھ نہیں ہوتا جو ناقابل برداشت ہو اور کوئی اتنا بڑا احسان بھی نہیں ہوتا کہ اس کا عوض دینا مشکل ہو یا اس کا عوض نہ دینے سے کوئی شکوہ کرے تو ایسی چیز کو رد کیوں کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5929