سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
The Book of Adornment
22. بَابُ : الْوَاصِلَةِ
22. باب: بال جوڑنے والی عورت کا بیان۔
Chapter: Woman who Affixes Hair Extensions
حدیث نمبر: 5097
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا ابو النضر، قال: حدثنا شعبة، عن هشام بن عروة، عن امراته فاطمة، عن اسماء بنت ابي بكر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" لعن الواصلة والمستوصلة".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَعَنَ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والی اور بال جوڑوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 83 (5935)، 85 (5941)، صحیح مسلم/اللباس 33 (2122)، سنن ابن ماجہ/النکاح 52 (1988)، (تحفة الأشراف: 15747)، مسند احمد (6/111، 345، 346، 353)، ویأتي عند المؤلف برقم: 5252 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري5941أسماء بنت أبي بكرلعن الله الواصلة والموصولة
   صحيح البخاري5935أسماء بنت أبي بكرسب رسول الله الواصلة والمستوصلة
   صحيح البخاري5936أسماء بنت أبي بكرلعن النبي الواصلة والمستوصلة
   صحيح مسلم5567أسماء بنت أبي بكرأفأصل يا رسول الله فنهاها
   صحيح مسلم5565أسماء بنت أبي بكرلعن الله الواصلة والمستوصلة
   سنن النسائى الصغرى5097أسماء بنت أبي بكرلعن الواصلة والمستوصلة
   سنن النسائى الصغرى5252أسماء بنت أبي بكرلعن الله الواصلة والمستوصلة
   سنن ابن ماجه1988أسماء بنت أبي بكرلعن الله الواصلة والمستوصلة
   مسندالحميدي323أسماء بنت أبي بكرلعن الله الواصلة والموصولة

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5097 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5097  
اردو حاشہ:
(1) لگانے والی خواہ اجرت پرلگائے یا خوشی سے کیونکہ حرام کام میں تعاون بھی حرام ہے۔
(2) لعنت فرمائی کسی کا نام لے کراس پر لعنت کرنا جائز نہیں مگر کسی وصف کا ذکر کرکے لعنت کی جاسکتی ہے، جیسے چور پر لعنت۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5097   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5252  
´بال جوڑنے اور جوڑوانے والی عورت پر وارد لعنت کا بیان۔`
اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری ایک بیٹی نئی نویلی دلہن ہے، اسے ایک بیماری ہو گئی ہے کہ اس کے بال جھڑ رہے ہیں اگر میں اس کے بال جوڑوا دوں تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: بال جوڑنے اور جوڑوانے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5252]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا گنجی عورت بھی بال نہیں لگا سکتی کیونکہ اس میں بھی دھوکا دہی پائی جاتی ہے نیز غیر ضروری تکلیف پایا جاتا ہے کیونکہ کم بالوں کے ساتھ بھی گزارا ہو سکتا ہے لیکن مصنوعی دانت اعضاء اور لینز وغیرہ لگوائے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5252   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1988  
´بالوں کو جوڑنے اور گودنا گودنے والی عورتوں پر وارد وعید کا بیان۔`
اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری بیٹی دلہن ہے، اور اسے چیچک کا عارضہ ہوا جس سے اس کے بال جھڑ گئے، کیا میں اس کے بال میں جوڑ لگا دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بالوں کو جوڑنے والی اور جوڑوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1988]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  میری بیٹی دلھن ہے۔
اس کایہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دلہن بننے والی ہے اور عنقریب اس کی شادی ہونے والی ہے۔
اور یہ مطلب بھی ہو سکتاہےکہ ابھی ابھی شادی ہوئی ہے اور خطرہ ہے کہ خاوند کا دل اس سے بیزار ہو جائے۔

(2)
رسول اللہ ﷺنے اسےاس عذر کے باوجود بال ملانے کی اجازت نہ دی، حالانکہ خاوند کو خوش کرنے کے لیے زیب و زینت شرعاً مطلوب ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کراہت کی نہیں بلکہ یہ عمل حرام ہے۔
لعنت سے بھی حرمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ صرف مکروہ کام پرلعنت نہیں کی جاتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1988   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:323  
323- سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک خاتون نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بیٹی کو بخار ہوا جس کے نتیجے میں اس کے بال گر گئے اب میں نے اس کی شادی کرنا ہے تو کیا میں اسے مصنوعی بال لگوادوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے مصنوعی بال لگائے جائیں ان پر لعنت کی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:323]
فائدہ:
اس حدیث میں وگ (بناوٹی بال) لگوانے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض لوگ اس شخص یا اس عورت کے لیے گنجائش نکالتے ہیں جس کا مکمل سر گنجا ہو جائے، اور دلیل ازالہ عیب بتاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ اگر کسی کے سر کے مکمل بال ختم ہو جائیں تو وہ ازالہ عیب کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر وگ نہیں لگا سکتا:
① احادیث میں با صراحت بالوں کے ساتھ بال جوڑ نے (یعنی وگ) سے منع کیا گیا ہے۔
② قطعی نص کی موجودگی میں قیاس سے مسئلہ اخذ کر نامحل نظر ہے۔ جب نص موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مصنوعی بال (وگ) لگانے سے منع کر دیا تھا، حالانکہ اس کے سر کے تمام بال گر گئے تھے، اب اس کی موجودگی میں اس حدیث پر قیاس کرنا جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو سونے کی ناک لگانے کی اجازت دی تھی، جب اس کی ناک جنگ میں کٹ گئی تھی محل نظر ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر آدمی کی ناک کٹ جائے تو نئی بناوٹی ناک لگوانا جائز ہے، کیونکہ اس کا جواز مل رہا ہے، اور اس سے منع نہیں کیا گیا، لیکن مصنوعی بال (وگ) لگوانے کی ممانعت موجود ہے۔ اب وہ دلیل مطلوب ہے جس میں مصنوعی بال لگوانے کی اجازت ہو۔
③ فیشن کی شرط لگانا بھی محل نظر ہے، کیونکہ اس کے لیے بھی نص صریح چاہیے۔ اگر کوئی کہے کہ وگ فیشن کی وجہ سے لگانا حرام ہے اور فیشن کی غرض سے نہ ہو تو وگ کا استعمال درست ہے، یہ فرق درست نہیں ہے، کیا یہ فرق قرآن و حدیث میں ہے؟ «اڈ ليس فليس»
④ جب گنجے پن کوختم کرنے کا علاج (پیوند کاری) موجود ہے جس کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے تو اس علاج کی موجودگی میں حرام اور ممنوع فعل (وگ لگانا) کو مباح قرار دینا درست نہیں ہے۔ (بالوں کا معاملہ از راقم الحروف بص: 45۔ 51)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 323   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5941  
5941. سیدہ اسماء‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! میری بیٹی کو چیچک نکل آئی ہے اس وجہ سے اس کے تمام بال جھڑ گئے ہیں، اور میں نے اس کا نکاح بھی کر دیا ہے۔ تو کیا میں اس کے سر میں مصنوعی بال لگا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے پیوند لگانے والی اور لگوانے والی (عورتوں) پر لعنت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5941]
حدیث حاشیہ:
آج کل تو مصنوعی داڑھیاں تک چل گئی ہیں بعض ملکوں میں امام، خطیب یہ استعمال کرتے سنے گئے ہیں ایسے لوگوں کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے جو احکام اسلام کی اس قدر تحقیر کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5941   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5935  
5935. سیدہ اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ ک‬ی روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں نے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے پھر اسے بیماری لاحق ہوئی تو اس کے سر کے تمام بال جھڑ گئے ہیں۔ اس کا شوہر مجھے ابھارتا رہتا ہے تو کیا میں اس کے سر پر مصنوعی بال لگا دوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے مصنوعی بال لگانے والی، اور لگوانے والی دونوں پر لعنت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5935]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام ابوداود رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ واصلہ سے مراد وہ عورت ہے جو دوسری عورتوں کے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگائے اور مستوصلہ وہ عورت ہے جس کے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگائے جائیں۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170) (2)
اگر کسی عورت کے بال بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے ہوں تو اسے بھی پیوندکاری کرنے کی اجازت نہیں، خواہ اس کا خاوند اس پرزور تقاضا ہی کیوں نہ کرے۔
حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ دھاگوں سے بنی ہوئی موباف، یعنی پراندی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4171)
مقام افسوس ہے کہ آج کل مصنوعی داڑھیاں بھی بازار سے دستیاب ہیں اور داڑھی منڈوانے والے خطیب حضرات بوقت ضرورت انہیں استعمال کرتے ہیں جیسا کہ مصر اور ترکی کی بعض مساجد میں ایسا ہوتا ہے۔
العیاذ باللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5935   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.