(مرفوع) اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني مخرمة بن بكير، عن ابيه، عن سعيد المقبري، قال: رايت معاوية بن ابي سفيان على المنبر ومعه في يده كبة من كبب النساء من شعر، فقال: ما بال المسلمات يصنعن مثل هذا؟! إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ايما امراة زادت في راسها شعرا ليس منه فإنه زور تزيد فيه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَمَعَهُ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ كُبَبِ النِّسَاءِ مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: مَا بَالُ الْمُسْلِمَاتِ يَصْنَعْنَ مِثْلَ هَذَا؟! إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَادَتْ فِي رَأْسِهَا شَعْرًا لَيْسَ مِنْهُ فَإِنَّهُ زُورٌ تَزِيدُ فِيهِ".
سعید مقبری کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو منبر پر دیکھا ان کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں عورتوں کے بالوں کی ایک چوٹی تھی، انہوں نے کہا: کیا حال ہے مسلمان عورتوں کا جو ایسا کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس عورت نے اپنے سر میں کوئی ایسا بال شامل کیا جو اس میں کا نہیں ہے تو وہ فریب کرتی ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5096
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے سرکے قدرتی اور اصلی بالون کے ساتھ نقلی یا کسی دوسری عورت کے بال جڑوائے تاکہ اس کے بال لمبے نظر آئیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زریں دور میں بھی عورتیں یہ کام کرتی تھیں، تو ایسا کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے بال جب تک اس کے سرپر موجود ہوں او ران کا پردہ ہے اور غیر محرم لوگوں سے ان کو چھپانا ضروری ہے، تاہم جب وہ الگ ہوجائیں تو وہ انہیں ضائع کرنا اور دفن کرنا ضروری ہے اور نہ غیر محرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے جیساکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ میں عورت کے بالوں کا گچھا پکڑا ہوا تھا اور انہوں نے وہ گچھا لوگوں کے سامنے بھی کیا۔ (3) بدعملی اور معصیت کے مرتکب لوگوں کو ہلاکت وتباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے متنبہ کرنا، نیز انہیں اس کے خطرناک نتائج سے ڈرانا ضروری ہے تاکہ وہ لوگ اللہ تعالی کے عذاب کا شکار ہونے سے بچ جائیں اور صراط مستقیم کے راہی بن جائیں۔ (4) دوران خطبہ لوگوں کو دکھانے کےلیے کوئی چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہے، نیز بنی اسرائیل یا دیگر اقوام کی ہلاکت اورتباہی و بربادی کے واقعات، عبرت کے لیے بیان کیے جاسکتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا نتیجہ کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہوتا ہے۔ (5) یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کےدور خلافت اور ان کے آخری حج کی بات ہے وہ مدینہ منورہ بھی حاضر ہوئے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5096