(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا الحكم بن موسى، قال: حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود، قال: حدثني الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى اهل اليمن كتابا فيه الفرائض والسنن والديات، وبعث به مع عمرو بن حزم، فقرئت على اهل اليمن هذه نسختها:" من محمد النبي صلى الله عليه وسلم , إلى شرحبيل بن عبد كلال , ونعيم بن عبد كلال , والحارث بن عبد كلال، قيل ذي رعين ومعافر , وهمدان اما بعد، وكان في كتابه:" ان من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة , فإنه قود إلا ان يرضى اولياء المقتول، وان في النفس الدية مائة من الإبل، وفي الانف إذا اوعب جدعه الدية، وفي اللسان الدية، وفي الشفتين الدية، وفي البيضتين الدية، وفي الذكر الدية، وفي الصلب الدية، وفي العينين الدية، وفي الرجل الواحدة نصف الدية، وفي المامومة ثلث الدية، وفي الجائفة ثلث الدية، وفي المنقلة خمس عشرة من الإبل، وفي كل اصبع من اصابع اليد والرجل عشر من الإبل، وفي السن خمس من الإبل، وفي الموضحة خمس من الإبل، وان الرجل يقتل بالمراة وعلى اهل الذهب الف دينار". خالفه محمد بن بكار بن بلال. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ كِتَابًا فِيهِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّيَاتُ، وَبَعَثَ بِهِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقُرِئَتْ عَلَى أَهْلِ الْيَمَنِ هَذِهِ نُسْخَتُهَا:" مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِلَى شُرَحْبِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ , وَنُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ , وَالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، قَيْلِ ذِيِ رُعَيْنٍ وَمَعَافِرَ , وَهَمْدَانَ أَمَّا بَعْدُ، وَكَانَ فِي كِتَابِهِ:" أَنَّ مَنِ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَيِّنَةٍ , فَإِنَّهُ قَوَدٌ إِلَّا أَنْ يَرْضَى أَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ، وَأَنَّ فِي النَّفْسِ الدِّيَةَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْأَنْفِ إِذَا أُوعِبَ جَدْعُهُ الدِّيَةُ، وَفِي اللِّسَانِ الدِّيَةُ، وَفِي الشَّفَتَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الْبَيْضَتَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الذَّكَرِ الدِّيَةُ، وَفِي الصُّلْبِ الدِّيَةُ، وَفِي الْعَيْنَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الرِّجْلِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْجَائِفَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْمُنَقِّلَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي كُلِّ أُصْبُعٍ مِنْ أَصَابِعِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي السِّنِّ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْمُوضِحَةِ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَأَنَّ الرَّجُلَ يُقْتَلُ بِالْمَرْأَةِ وَعَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفُ دِينَارٍ". خَالَفَهُ مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ.
عمرو بن حزم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے ایک کتاب لکھی، اس میں فرائض و سنن اور دیتوں کا ذکر کیا، وہ کتاب عمرو بن حزم کے ساتھ بھیجی، چنانچہ وہ اہل یمن کو پڑھ کر سنائی گئی، اس کا مضمون یہ تھا: نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شرحبیل بن عبد کلال، نعیم بن عبد کلال اور حارث بن عبد کلال کے نام جو رعین، معافر اور ہمدان کے والی تھے۔ امابعد، اس کتاب میں لکھا تھا: جو بلا وجہ کسی مومن کو مار ڈالے اور اس کا ثبوت ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مقتول کے اولیاء معاف کر دیں، اور ایک جان کی دیت سو اونٹ ہے۔ ناک پوری کٹ جائے تو پوری دیت ہے، اور زبان میں دیت ہے، دونوں ہونٹوں میں دیت ہے، دونوں فوطوں میں دیت ہے، عضو تناسل میں دیت ہے، پیٹھ میں دیت ہے، آنکھوں میں دیت ہے، ایک پاؤں کی دیت آدھی ہے، جو زخم دماغ تک پہنچے اس میں تہائی دیت ہے۔ جو زخم پیٹ تک پہنچے اس میں تہائی دیت ہے، اور جس زخم سے ہڈی سرک جائے اس میں دیت پندرہ اونٹ ہیں۔ اور ہاتھ پاؤں کی ہر انگلی میں دیت دس اونٹ ہیں۔ دانت میں دیت پانچ اونٹ ہیں، اس زخم میں جس سے ہڈی کھل جائے دیت پانچ اونٹ ہیں، اور مرد عورت کے بدلے قتل کیا جائے اور سونا والے لوگوں پر ہزار دینار ہیں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) محم بن بکار بن بلال نے اس سے اختلاف کیا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: محمد بن بکار نے حکم بن موسیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے یحییٰ سے انہوں نے سلیمان بن ارقم سے روایت کی ہے، اور یہی صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4850 (ضعیف) (اس کے راوی ”سلیمان‘‘ (جو حقیقت میں ’’ابن داود‘‘ نہیں بلکہ ’’ابن ارقم‘‘ ہیں، متروک الحدیث ہیں، صحیح سن دوں سے یہ حدیث زہری سے مرسلاً ہی مروی ہے، بہر حال اس کے اکثر مشمولات کے صحیح شواہد موجود ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، سليمان بن داود صوابه سليمان بن أرقم،انظر الحديث الآتي (4858) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 357
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4857
اردو حاشہ: (1) محمد بن بکار بن بلال نے حکم بن موسیٰ کی مخالفت کی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ حکم بن موسیٰ نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے کہا ہے: حدثنا یحي بن حمزة عن سلیمان بن داود قال: حدثني الزھري، جب محمد بن بکار بن بلال نے یہ روایت بیان کی تو کہا: حدثنا یحي قال حدثنا سلیمان بن أرقم قال حدثني الزھري مطلب یہ ہے کہ حکم بن موسیٰ نے یحییٰ بن حمزہ کے استاد سلیمان بن داود سے روایت بیان کی ہے جبکہ محمد بن بکار بن بلال نے یہی روایت یحییٰ کے استاد سلیمان بن ارقم سے بیان کی ہے جیسا کہ درج ذیل روایت میں بیان کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم (2) یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم اس کے اکثر مندرجات دیگر صحیح احادیث میں مذکور ہیں، جن میں سے بعض پہلے گزر چکے ہیں، نیز ان سے متعلقہ احکام ومسائل کی تفصیل بھی بیان ہو چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4857
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1015
´اقسام دیت کا بیان` عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جن زخموں سے ہڈی کھل جائے ان کی دیت پانچ اونٹ ہیں۔“ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور احمد میں اتنا اضافہ ہے ” تمام انگلیوں کی دیت برابر ہے، ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ ہے۔“ اس روایت کو ابن خزیمہ اور ابن جارود نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1015»
تشریح: لڑائی کے دوران میں چوٹ اور زخم کی صورت میں ہڈی سے گوشت الگ ہو جائے اور ہڈی واضح طور پر کھل جائے مگر ٹوٹنے سے بچ جائے تو ایسی صورت میں شوافع‘ احناف اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا مسلک یہی ہے کہ پانچ اونٹ دیت ادا کرنا لازمی ہوگا جبکہ ہاتھ پاؤں کی انگلیوں میں کوئی ایک انگلی ضائع کر دی جائے تو دیت دس اونٹ ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1015
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4846
´دانتوں کی دیت کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام دانت برابر ہیں، ہر ایک میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔“[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4846]
اردو حاشہ: (1) کسی بھی عضو کے فائدے کا صحیح تعین بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک عضو کئی کام دیتا ہے، مثلاً سامنے کے دانت کاٹنے کے کام بھی آتے ہیں اور مشکل وقت میں پکڑنے کے بھی۔ اسی طرح وہ چہرے کی زینت بھی ہیں، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کھانا کھانے میں ڈاڑھوں کا زیادہ حصہ ہے اور دانتوں کا کم، اس لیے ڈاڑھوں کی دیت زیادہ ہونی چاہیے۔ گویا اعضاء کے پورے فائدے کا تعین اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا شریعت نے جو دیت مقرر کر دی ہے، وہی صحیح ہے۔ اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ (2) اگر کوئی شخص کسی کے تمام دانت توڑ دے تو اس کی دیت کتنی ہوگی؟ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ ہوگی اس طرح کہ اگر کوئی شخص بتیس دانت توڑتا ہے تو اسے ایک سو ساٹھ (160) اونٹ دیت دینا ہوگی۔ ڈاڑھیں اور دانت اس میں برابر ہیں۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ بارہ دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہوں گے اور باقی بیس ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ ہوگا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ باقی ڈاڑھوں میں دو دو اونٹ ہوں گے۔ ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک فیصلہ ہے کہ انھوں نے ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ دیت مقرر کی۔ پھر یہ بھی کہ پہلے قول پر عمل کی صورت میں دیت جان کی دیت سے بھی بڑھ جائے گی۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان سے یہ بھی مروی ہے کہ دانت اور داڑھیں برابر ہیں، اس لیے ان کا وہ فتویٰ قابل عمل ہوگا جو مرفوع حدیث کے مطابق ہے اور پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مرفوع حدیث کا علم ہوتا تو وہ بھی ڈاڑھوں میں پانچ پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرماتے۔ رہی دوسری بات کہ اس طرح دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی تو یہ نہ قیاس کے خلاف ہے نہ اصول کے بلکہ اصول کے عین مطابق ہے کہ ڈاڑھوں کو دانتوں پر قیاس کیا جائے، پھر اہل علم کے نزدیک ”اسنان“ کا اطلاق، اضراس پر بھی ہوتا ہے۔ پھر کئی صورتیں اور بھی ممکن ہیں جن میں دیت جان کی دیت سے بڑھ جاتی ہے، مثلاً: کسی شخص کی آنکھ نکال دی جائے اور دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔ جائیں تو دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی۔ مزید دیکھیے: (الاستذکار، لابن عبدالبر: 25/ 146-148) ہمارے نزدیک جمہور اہل علم کا موقف ہی راجح ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4846
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4856
´ہڈی تک پہنچنے والے زخم کی دیت کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کیا تو خطبے میں فرمایا: ”ہر اس زخم میں جس میں ہڈی کھل جائے، دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4856]
اردو حاشہ: اگر چمڑا اور گوشت کٹ کر ہڈی نظر آنے لگے لیکن ہڈی کا نقصان نہ ہوا ہو تو اس زخم کو عربی زبان میں موضحہ کہا جاتا ہے۔ یہ زخم معمولی ہوتا ہے اور جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی معمولی، یعنی صرف پانچ اونٹ رکھی گئی ہے۔ اگر اس سے کم زخم ہو تو عدالت کوئی سی دیت جو پانچ اونٹ سے کم ہو، مقرر کر سکتی ہے۔ دیت انسانی عظمت کے پیش نظر رکھی گئی ہے کہ انسان خصوصاً مسلمان کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اگر اس کو خراش بھی آگئی تب بھی جرمانہ اور تاوان لاگو ہوگا۔ بعض فقہاء نے اس موضحہ میں پانچ اونٹ دیت رکھی ہے جو سر یا چہرے میں ہو۔ باقی جسم میں موضحہ کی دیت عدالت کی صوابدید پر موقوف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پانچ اونٹ سے کم ہوگی کیونکہ چہرہ افضل عضو ہے، اس لیے اس پر مارنا زیادہ جرم ہے۔ لیکن یہ تخصیص کسی حدیث میں نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4856
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2655
´ہڈی ظاہر کر دینے والے زخم کی دیت کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہڈی ظاہر کر دینے والے زخم میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2655]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ”موضحہ“ وہ زخم ہے جس سے ہڈی کی سفیدی ظاہر ہوجائے۔ جس موضحہ کا جرمانہ پانچ اونٹ ہے وہ ایسا موضحہ ہے جو سر اور چہرے میں ہو۔ کسی اور عضو پر اگر موضحہ زخم لگے تو اس پر مناسب نقد جرمانہ ہے۔“(النہایة۔ مادہ، وضح)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2655
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1390
´موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم) کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «موضحہ»(ہڈی کھل جانے والے زخم)۱؎ میں پانچ اونٹ ہیں۔“[سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1390]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: موضحہ وہ زخم ہے جس سے ہڈی کھل جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1390