(مرفوع) اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: قرات كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي كتب لعمرو بن حزم حين بعثه على نجران , وكان الكتاب عند ابي بكر بن حزم، فكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا بيان من الله ورسوله يايها الذين آمنوا اوفوا بالعقود وكتب الآيات منها حتى بلغ إن الله سريع الحساب سورة المائدة آية 1 - 4" , ثم كتب:" هذا كتاب الجراح , في النفس مائة من الإبل" , نحوه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَرَأْتُ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَتَبَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حِينَ بَعَثَهُ عَلَى نَجْرَانَ , وَكَانَ الْكِتَابُ عِنْدَ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا بَيَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ وَكَتَبَ الْآيَاتِ مِنْهَا حَتَّى بَلَغَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ سورة المائدة آية 1 - 4" , ثُمَّ كَتَبَ:" هَذَا كِتَابُ الْجِرَاحِ , فِي النَّفْسِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ" , نَحْوَهُ.
محمد بن شہاب زہری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کتاب پڑھی جو آپ نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے لکھی جب انہیں نجران کا والی بنا کر بھیجا، کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا تھا: یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیان ہے: «يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود»”اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو“(المائدہ: ۱) اور اس کے بعد کی آیات لکھیں یہاں تک کہ آپ «إن اللہ سريع الحساب»”اللہ جلد حساب لینے والا ہے“(المائدہ: ۴) تک پہنچے۔ پھر لکھا تھا: یہ زخموں کی کتاب ہے، ایک جان کی دیت سو اونٹ ہیں، پھر آگے اسی طرح ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4859
اردو حاشہ: (1) نجران یمن کا ایک علاقہ تھا۔ سابقہ احادیث میں بھی یمن والوں سے مراد اہل نجران ہی ہیں۔ وہاں تین قبیلوں کے تین سردار تھے جس کی تفصیل حدیث نمبر 4857 میں گزر چکی ہے۔ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آپ نے نگران اعلیٰ بنا کر بھیجا تھا۔ (2)”چند آیات“ یہ سورۂ مائدہ کی ابتدائی چار آیات ہیں۔ ان میں بھی کچھ شرعی احکام بیان ہوئے ہیں۔ (3) آپ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ یہ قطعی بات ہے، لہٰذا اگر کہیں لکھنے کا ذکر ہے تو مراد لکھوانا ہے۔ آپ ہمیشہ دوسروں سے لکھواتے تھے۔ (4) یہ روایت مرسل ہے اور مرسل کے بارے میں محدثین کا صحیح موقف یہی ہے کہ یہ ضعیف ہے، تاہم عمرو بن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کتاب قرون اولیٰ میں معروف تھی۔ اور ان کی آل کے پاس بھی رہی۔ پھر اس روایت کے متن کے شواہد بھی صحیح احادیث میں موجود ہیں، اس لیے نفس سند حدیث پر حسن یا صحیح کا حکم تو محل نظر ہے، تاہم اس میں مذکورہ احکام دیگر احادیث کی تائید کی بنا پر قابل استدلال ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4859