تخریج: «أخرجه النسائي، القسامة، باب هل يؤخذ أحد بجريرة غيره، حديث:4836، وأبوداود، الديات، حديث:4495، وابن خزيمة، وابن الجارود.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصاص اور عتاب میں مجرم کے بدلے میں کسی اور کو نہیں پکڑا جائے گا حتیٰ کہ باپ کے بدلے میں بیٹے سے اور بیٹے کے بدلے میں باپ سے مؤاخذہ نہیں ہوگا۔
اگر کہا جائے کہ شریعت نے قتل خطا اور قسامت کی صورت میں دیت کا بار عصبہ پر کیوں ڈالا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بوجھ نہیں بلکہ یہ باہمی تعاون و امداد ہے جو بھائی چارے اور برادری کی بنیاد پر بہ تقاضائے طبیعت بوقت ضرورت کی جاتی ہے اور برادری کے افراد بخوشی ادا کرتے ہیں کیونکہ ہر ایک اپنے قریبی عزیز کی غمگساری میں برضا و رغبت شریک ہونا فخر سمجھتا ہے اور انسانی تمدن اور معاشرت اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ آج اگر کسی پر افتاد پڑ گئی ہے تو اس کا سہارا بنے‘ کل وہ بھی اس میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابورِمْثہ رضی اللہ عنہ» ایک قول کے مطابق ان کا نام حبیب بن حیان ہے۔
اور ایک دوسرے قول کے مطابق رفاعہ بن یثربی یا عمارہ بن یثربی ہے۔
بلوی تھے یا بنو تیم الرباب سے ہونے کی وجہ سے تیمی معروف تھے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ یہ امریٔ القیس بن زید مناۃ بن تمیم کی اولاد سے ہونے کی وجہ سے تمیمی ہیں۔
مشہور صحابی ہیں۔
ان کا شمار اہل کوفہ میں ہوتا ہے۔
اور لفظ رِمْثَـہ میں
”را
“ کے نیچے کسرہ اور
”میم
“ ساکن ہے۔