(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا عبيد الله يعني ابن إياد، حدثنا إياد، عن ابي رمثة، قال:" انطلقت مع ابي نحو النبي صلى الله عليه وسلم، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لابي: ابنك هذا؟ قال: إي ورب الكعبة، قال: حقا، قال: اشهد به، قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا من ثبت شبهي في ابي ومن حلف ابي علي، ثم قال: اما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه، وقرا رسول الله صلى الله عليه وسلم: ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ إِيَادٍ، حَدَّثَنَا إِيَادٌ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ:" انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِي: ابْنُكَ هَذَا؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: حَقًّا، قَالَ: أَشْهَدُ بِهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا مِنْ ثَبْتِ شَبَهِي فِي أَبِي وَمِنْ حَلِفِ أَبِي عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ، وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164".
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے میرے والد سے پوچھا: ”یہ تمہارا بیٹا ہے؟“ میرے والد نے کہا: ہاں رب کعبہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ مچ؟“ انہوں نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، کیونکہ میں اپنے والد کے مشابہ تھا، اور میرے والد نے قسم کھائی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! نہ یہ تمہارے جرم میں پکڑا جائے گا، اور نہ تم اس کے جرم میں“ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی“(الانعام: ۱۶۴، الاسراء: ۱۵، الفاطر: ۱۸)۔
Narrated Abu Rimthah: I went to the Prophet ﷺ with my father. The Messenger of Allah ﷺ then asked my father: Is this your son? He replied: Yes, by the Lord of the Kabah. He again said: Is it true? He said: I bear witness to it. The Messenger of Allah ﷺ then smiled for my resemblance with my father, and for the fact that my father took an oath upon me. He then said: He will not bring evil on you, nor will you bring evil on him. The Messenger of Allah ﷺ recited the verse: "No bearer of burdens can bear the burden of another. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4480
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3471) أخرجه النسائي (4836 وسنده حسن) وانظر الحديث السابق (4065)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4495
فوائد ومسائل: کوئی مجرم جرم کرکے بھاگ جائے اور حکومت اس کو پکڑ نہ سکے اس کے والدین یا عزیز واقارب کو پکڑ لینا صریح ظلم ہے، الا یہ کہ وہ اس کے جرم میں شریک ہوں یا اسے بھگانے یا چھپانے والے ہوں اور یہ بات اسلامی معاشرے اور اسلامی قانون کی ہے جب لوگ شریعت کے پابند ہوں تو شریعت بھی ان کی پابند نہیں ہو سکتی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4495
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1019
´اقسام دیت کا بیان` سیدنا ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ” یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا۔ میرا بیٹا ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر گواہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بیشک یہ تیرے گناہ و جرم کا ذمہ دار نہیں اور نہ تو اس کے گناہ و جرم کا ذمہ دار۔“ اسے نسائی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ اور ابن جارود نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1019»
تخریج: «أخرجه النسائي، القسامة، باب هل يؤخذ أحد بجريرة غيره، حديث:4836، وأبوداود، الديات، حديث:4495، وابن خزيمة، وابن الجارود.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصاص اور عتاب میں مجرم کے بدلے میں کسی اور کو نہیں پکڑا جائے گا حتیٰ کہ باپ کے بدلے میں بیٹے سے اور بیٹے کے بدلے میں باپ سے مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اگر کہا جائے کہ شریعت نے قتل خطا اور قسامت کی صورت میں دیت کا بار عصبہ پر کیوں ڈالا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بوجھ نہیں بلکہ یہ باہمی تعاون و امداد ہے جو بھائی چارے اور برادری کی بنیاد پر بہ تقاضائے طبیعت بوقت ضرورت کی جاتی ہے اور برادری کے افراد بخوشی ادا کرتے ہیں کیونکہ ہر ایک اپنے قریبی عزیز کی غمگساری میں برضا و رغبت شریک ہونا فخر سمجھتا ہے اور انسانی تمدن اور معاشرت اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ آج اگر کسی پر افتاد پڑ گئی ہے تو اس کا سہارا بنے‘ کل وہ بھی اس میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابورِمْثہ رضی اللہ عنہ» ایک قول کے مطابق ان کا نام حبیب بن حیان ہے۔ اور ایک دوسرے قول کے مطابق رفاعہ بن یثربی یا عمارہ بن یثربی ہے۔ بلوی تھے یا بنو تیم الرباب سے ہونے کی وجہ سے تیمی معروف تھے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ امریٔ القیس بن زید مناۃ بن تمیم کی اولاد سے ہونے کی وجہ سے تمیمی ہیں۔ مشہور صحابی ہیں۔ ان کا شمار اہل کوفہ میں ہوتا ہے۔ اور لفظ رِمْثَـہ میں ”را“ کے نیچے کسرہ اور ”میم“ ساکن ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1019
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4836
´کیا کسی کو دوسرے کے جرم میں گرفتار کیا جا سکتا ہے؟` ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟“ اس نے کہا: یہ میرا بیٹا ہے، میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا قصور اس پر نہیں اور اس کا قصور تم پر نہیں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4836]
اردو حاشہ: (1) نبی ﷺ اس بات کا ہمیشہ التزام فرماتے کہ موقع محل کی مناسبت سے مسئلہ بیان فرمائیں اور کتاب وسنت کے احکام وضاحت سے بیان کر دیں، نیز نبی ﷺ مسئلہ اس انداز سے واضح فرماتے کہ اس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہتا بلکہ ہر شخص بآسانی سمجھ لیتا تھا۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر کرتی ہے: ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾(الفاطر: 35: 18)”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ (3) جاہلیت میں باپ بیٹا تو ایک طرف پورے قبیلے کے افراد کو ایک دوسرے کے جرائم کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ قبیلے کے کسی شخص نے قتل کیا ہوتا تو قبیلے کے کسی بھی شخص کو پکڑ کر قتل کر دیا جاتا اور دعویٰ کیا جاتا کہ ہم نے قصاص لے لیا ہے۔ اسلام نے اس بد رسم کو نہ صرف ختم کیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ گناہ گار وہی ہے جس نے جرم کیا۔ سزا بھی اسے ہی دی جا سکتی ہے، کسی اور کو نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر قتل خطا وشبہ عمد کی دیت رشتہ داروں پر کیوں پڑتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ اس کے ساتھ تعاون ہے کیونکہ قتل خطا کی صورت میں تو قاتل بالکل ہی بے گناہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بے احتیاطی کا مجرم کہا جا سکتا ہے اور شبہ عمد میں مجرم تو ہوتا ہے کہ اس نے لڑائی کی مگر چونکہ قتل کا تو اسے تصور بھی نہیں تھا، لہٰذا وہ اتنا مجرم نہیں ہوتا کہ اس پر سو قیمتی اونٹنیوں کا بوجھ ڈال دیا جائے لیکن چونکہ کسی مسلمان کا خون رائیگاں نہیں جا سکتا، اس لیے دیت اس پر ڈال دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے رشتہ داروں کو اس سے تعاون کرنے کا قانونی طور پر پابند بنا دیا گیا تاکہ وہ پاؤں نہ کھینچ سکیں۔ البتہ جب قاتل مکمل قصور وار ہو، مثلاً: قتل عمد میں تو اسے خود ہی قصاص دینا ہوگا۔ اس کے کسی بھائی یا باپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دیت ہو تو وہ بھی خود ہی بھرے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4836