تخریج: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1080، وأبوداود، صلاة السفر، حديث:1230-1232، وحديث عمران أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1229 وهو حديث حسن، وحديث جابر أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1235 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
1.مکہ میں مدت قیام کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ۱۹ روز یا ۱۸ روز یا ۱۷ روز یا ۱۵ روز قیام پذیر رہے۔
ان میں سے ہر مدت قیام کے حق میں کچھ نہ کچھ لوگوں کی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اس سے زیادہ مدت ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز قصر نہیں کرے گا۔
2.یہ ذہن نشین رہے کہ مدت قیام میں اختلاف فتح مکہ کے موقع کا ہے‘ حجۃ الوداع کے موقع کا نہیں‘ کیونکہ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ وہ تو صرف دس روز تھا۔
3. ان روایات میں جمع و تطبیق کی صحیح صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۱۹ روز والی روایت دوسری روایات کے مقابلے میں صحیح ترین اور قوی ترین ہے۔
اس کی تائید اہل مغازی کا وہ بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بروز منگل صبح کو داخل ہوئے‘ وہ رمضان کی سترہ تاریخ تھی اور حنین کی جانب بروز ہفتہ چھ شوال کو روانہ ہوئے۔
پس ان ایام کی تعداد‘ دخول اور خروج کے ایام سمیت ۱۹ روز بنتی ہے اور ۱۸ روز والی روایت تو اپنے ضعف کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس کے باوجود یہ احتمال ہے کہ راوی کے ذہن میں راتوں کی تعداد ہو‘ دنوں کی تعداد نہ ہو کیونکہ آپ مکہ میں داخل بھی دن کو ہوئے تھے اور یہاں سے نکلے بھی دن کو تھے۔
یوں ۱۹ دن کی تعداد پوری ہوگئی اور راتوں کی تعداد ۱۸ ہوئی۔
اس طرح ان دونوں روایتوں میں کوئی فرق اور تعارض باقی نہ رہا۔
اور اس تاویل کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ۱۸ کی تعداد والی روایت میں لفظ لیل
(شب) موجود ہے۔
اور سترہ یوم والی روایت کی صورت میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ غالباً راوی نے مکہ میں دخول اور خروج کے دونوں دن شمار نہیں کیے‘ لہٰذا انیس میں سے دو نکال دیں تو باقی سترہ ہی رہ جاتے ہیں۔
اور رہی پندرہ یوم والی روایت تو وہ روایت شاذ ہے اور ثقہ راویوں کی روایت کردہ روایات کے مخالف ہے‘ لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
اور اس کا بھی احتمال ہے کہ راوی نے سترہ یوم والی روایت کو اصل قرار دے کر مکہ میں آپ کے داخل اور خارج ہونے کا دن نکال دیا ہو‘ اس طرح سترہ میں سے دو نکال دیے جائیں تو باقی پندرہ دن رہ جاتے ہیں۔
4. ان روایات سے مدت قصر کے تعین پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان روایات میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اگر آپ اس مدت سے زیادہ قیام کرتے تو قصر چھوڑدیتے اور پوری نماز پڑھتے بلکہ آپ سے تو تبوک کے مقام پر بیس دن کے قیام میں بھی قصر ثابت ہے۔
آپ نے قصر کو نہیں چھوڑا تھا۔
اور اس لیے کہ یہ سفر تو غزوہ اور لڑائی کا سفر تھا۔
محارب کو ہر لمحہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں کہ اسے آگے بھی بڑھنا پڑے اور پیچھے بھی ہٹنا اور واپس ہونا پڑے۔
یہ صورت حال بذات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئی کہ فتح مکہ کے فوراً بعد آپ کو مجاہدین کا ایک چھوٹا سا دستہ عزٰی کے انہدام کے لیے روانہ کرنا پڑا اور اس دستے کی قیادت اور امارت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دی‘ پھر معاً بعد دوسرا دستہ سواع بت کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا‘ اس لشکر کی قیادت و امارت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمائی‘ پھر تیسرا دستہ مناۃ بت کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا‘ اس کی امارت پر حضرت سعد بن زید رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور پھر چوتھا دستہ جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا‘ اس کی قیادت بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تفویض فرمائی۔
اس کے بعد تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ قبائل ثقیف و ہوازن کے اجتماع کی اطلاع ملی تو آپ نے خود آگے بڑھ کر ان کا سامنا کیا حتی کہ وادی ٔحنین میں ان سے مڈبھیڑ ہوگئی۔
پھر یہاں پر وہ معرکہ آرائی ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا جو مشہور و معروف ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مجاہد و سپاہی اگر قیام کا ارادہ کرے‘ خواہ فتح یابی و کامرانی کے بعد ہی ہو اس کی نیت معتبر تسلیم نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی کیفیت تو اس مسافر کی سی ہوگی جو تذبذب و تردد میں مبتلا ہو کہ آج واپسی ہوتی ہے یا کل‘ پس ایسا متردد ا ور متذبذب مسافر ہمیشہ قصر نماز ہی ادا کرتا رہے گا‘ خواہ یہ کیفیت سالوں اور مہینوں پر محیط ہو‘ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کے مواقع پر قصر نماز ادا فرمانا‘ قصر نماز کی مدت متعین پر دلالت ہی نہیں کرتا۔
5. اس بارے میں راجح مسلک وہی ہے جسے ائمۂ ثلاثہ: امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے کہ جو آدمی داخل اور خارج ہونے کے دونوں ایام کو چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے۔
یہ اس بنیاد پر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ اور گرد و نواح میں دس دن گزارے تھے تو آپ ان ایام میں قصر نماز ادا فرماتے رہے۔
آپ مکہ میں ذی الحجہ کی چار تاریخ کو صبح داخل ہوئے اور مکہ سے آٹھ ذی الحجہ کے دن کے آغاز میں نکلے تھے۔
اس دوران میں آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے حتی کہ مناسک کی تکمیل فرما لی۔
اس اعتبار سے آپ کے قیام کی مدت صرف تین دن بنتی ہے‘ داخل ہونے اور وہاں سے نکلنے کے دو دن اس سے خارج ہیں۔
آپ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے حالت امن میں اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور آپ نے قصر نماز ادا کی ہو‘ یا اس سے کم مدت کا قیام فرمایا ہو اور قصر نماز ادا نہ فرمائی ہو‘ لہٰذا نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر ثابت ہوگیا اس پر اکتفا کیا جائے گا‘ اس پر اضافہ درست نہیں ہے۔
6. مناسک حج کی تکمیل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہاجرین کو مکہ میں تین دن سے زائد قیام کرنے سے منع فرمانا بھی اس کی دلیل ہے کہ مسافر اگر چار دن کا ارادہ کرے گا تو مقیم سمجھا جائے گا‘ نیز ان کا استدلال اس سے بھی ہے جو امام مالک رحمہ اللہ نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہود کو حجاز سے جلا وطن کیا تو پھر ان میں جو تاجر کی حیثیت سے حجاز میں آنا چاہتا اسے بھی تین دن قیام کی اجازت دیتے۔
مصنف نے اسے اپنی کتاب التلخیص الحبیر میں نقل کرکے کہا ہے کہ اسے امام ابوزرعہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں ۱۵‘ ۱۷‘ ۱۸ اور ۱۹ روز قصر نماز پڑھنے کا جو ذکر ہے‘ اس کی تطبیق اور روایات کے مابین جمع کی صورت اوپر مذکور ہے۔
مختلف مکاتب فکر کے ہاں مدت قیام بھی مختلف ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں تین دن اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ۱۵ دن۔
جب مسافر حالت تردد میں مبتلا ہو جائے اور واپسی کا حتمی فیصلہ نہ کر پائے تو ایسی صورت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے اصحاب سمیت اور ایک قول کی رو سے امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایسا متردد و متذبذب مسافر تادم زیست یا واپسی تک قصر کر سکتا ہے‘ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے آذر بائیجان میں چھ ماہ تک قصر نماز پڑھی اور اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کو نیشا پور کے مقام پر سال یا دو سال حالت تردد میں رہنا پڑا تو قصر ہی کرتے رہے۔
اور کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رامہرمز میں نو ماہ تک رکنا پڑا تو وہ قصر ہی کرتے رہے۔
ان واقعات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ تردد اور تذبذب کی حالت میں قصر کی مدت مقرر نہیں ہے بلکہ جب تک ضرورت کا تقاضا ہو اتنی مدت تک قصر جائز ہے۔