ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابتداء میں دو رکعت نماز فرض کی گئی، پھر سفر کی نماز (دو ہی) باقی رکھی گئی اور حضر کی نماز (بڑھا کر) پوری کر دی گئی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 454
454 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث میں نماز سے مراد مغرب اور فجر کے علاوہ ہیں کیونکہ یہ نمازیں سفروحضر میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ مغرب ہرحال میں تین رکعت اور فجر ہر حال میں دورکعت ہے۔ ➋اس حدیث کا ظاہر مراد نہیں کیونکہ قرآن مجید کی آیت ﴿فلیس علیکم جناح ان تقصرو من الصلوۃ﴾[النساء4: 101] سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر والی نمازیں چاررکعت تھیں۔ مسافر کو رخصت دی گئی کہ دو پڑھ لے، الایہ کہ حدیث کا مطلب یہ ہو کہ معراج سے پہلے نماز دورکعت تھی۔ جب معراج کے موقع پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں تو بعض کو چار رکعت کر دیا گیا، پھر سفر کی نماز دو رکعت کر دی گئی تو گویا وہ معراج سے پہلے والی حالت میں رہ گئی اور گھر کی نماز مکمل رہنے دی گئی۔ ➌اس حدیث سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ سفر کی نماز دورکعت ہی ہے۔ چار پڑھ ہی نہیں سکتا جس طرح ظہر کی چھ نہیں پڑھ سکتا، مگر یہ مطلب مذکورہ قرآنی آیت کے علاوہ خود راویٔ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسلک کے بھی خلاف ہے کیونکہ وہ سفر میں چار بھی پڑھتی تھیں اور احناف کے نزدیک راوی کی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے نہ کہ روایت کے ظاہر الفاظ کو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 454