(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا داود بن قيس، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة؟، فقال:" لا يحب الله عز وجل العقوق" , وكانه كره الاسم، قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما نسالك احدنا يولد له، قال:" من احب ان ينسك عن ولده فلينسك عنه عن الغلام شاتان مكافاتان، وعن الجارية شاة". قال داود: سالت زيد بن اسلم عن المكافاتان؟، قال: الشاتان المشبهتان , تذبحان جميعا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ؟، فَقَالَ:" لَا يُحِبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْعُقُوقَ" , وَكَأَنَّهُ كَرِهَ الِاسْمَ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا نَسْأَلُكَ أَحَدُنَا يُولَدُ لَهُ، قَالَ:" مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَنْسُكْ عَنْهُ عَنَ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ". قَالَ دَاوُدُ: سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ عَنِ الْمُكَافَأَتَانِ؟، قَالَ: الشَّاتَانِ الْمُشَبَّهَتَانِ , تُذْبَحَانِ جَمِيعًا.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا“۔ گویا کہ آپ کو یہ نام ناپسند تھا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ہم تو آپ سے صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب ایک شخص کے یہاں اولاد پیدا ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ”جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے ۱؎ کرے، لڑکے کی طرف سے ایک ہی عمر کی دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری“۔ داود بن قیس کہتے ہیں: میں نے زید بن اسلم سے «مكافئتان» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: دو مشابہ بکریاں جو ایک ساتھ ذبح کی جائیں ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اسی جملے سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ کہتے ہیں کہ ”عقیقہ“ فرض نہیں مندوب و مستحب ہے، جب کہ فرض قرار دینے والے حدیث نمبر ۴۲۱۹ سے استدلال کرتے ہیں جس میں حکم ہے کہ ”بچے کی طرف سے خون بہاؤ“ نیز اور بھی کچھ الفاظ ایسے وارد ہیں جن سے عقیقہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے، إلا یہ کہ کسی کو عقیقہ کے وقت استطاعت نہ ہو تو بعد میں استطاعت ہونے پر قضاء کر لے۔ ۲؎: عمر میں برابر ہوں یا وصف میں ایک دوسرے سے قریب تر ہوں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4217
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے عقیقے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ شریعت مطہرہ نے لڑکے اور لڑکی کے عقیقے میں یہ فرق کیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دو بکریاں جبکہ لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی، تاہم اگر استطاعت نہ ہو تو لڑکے کی طرف سے بھی ایک بکری کفایت کر جائے گی۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے عقیقہ میں ایک جانور ذبح کرنا متفقہ مسئلہ ہے اور اس میں کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ وراثت میں بھی تو لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں فرق ہے۔ ویسے بھی عموماً لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوشی مناتے ہیں، لہٰذا اس کا شکرانہ بھی زیادہ ہی ہونا چاہیے۔ (2)”ناپسند فرماتا ہے“ یعنی لفظ عقوق کو، جیسا کہ راوی نے وضاحت کی ہے۔ عقوق کے معنیٰ نافرمانی کے ہیں۔ یہ لفظ اچھا نہیں، لہٰذا بہتر ہے کہ بجائے عقیقہ کے نسیکۃ (اللہ تعالیٰ کے راستے میں ذبح ہونے والا جانور) کہا جائے لیکن یہ بھی ضروری نہیں۔ بعض احادیث میں صراحتاً لفظ عقیقہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں لے سکتے کہ اللہ تعالیٰ فعل عقیقہ کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ آئندہ الفاظ میں تو آپ خود عقیقے کی سنیت ذکر فرما رہے ہیں۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عقیقہ نہ کرنے کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ عقوق کے معنیٰ قطع رحم کے بھی ہیں، جیسے کہ نافرمان اولاد کو عاق کہا جاتا ہے۔ جو والد اپنے بچے کا عقیقہ نہ کرے، گویا اس نے اس رشتے کا حق ادا نہیں کیا، لہٰذا اسے بھی عاق کہا جائے گا کیونکہ اس نے عقوق کیا۔ لیکن یہ معنیٰ ذرا پیچیدہ ہیں۔ (3)”ذبح کرنا چاہے“ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کرنا ضروری نہیں۔ لیکن دوسری روایات کو ساتھ ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ سنت ہے اور سنت کو بلاوجہ چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ (4)”دو پوری بکریاں“ یعنی عمر میں بھی پوری ہوں اور اوصاف میں بھی۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقے کا جانور کم از کم قربانی کے جانور کی طرح ہو اور اس میں کوئی عیب نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ پورا نہیں ہو گا۔ اس لفظ کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ”دو بکریاں جو قربانی کے جانور کے برابر ہوں۔“ تیسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ایک جیسی دو بکریاں۔ تینوں ترجمے صحیح ہیں۔ (5) عقیقہ میں بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ برابر ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4217
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2842
´عقیقہ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ «عقوق»(ماں باپ کی نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا“ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو ناپسند فرمایا، اور مکروہ جانا، اور فرمایا: ”جس کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنے بچے کی طرف سے قربانی (عقیقہ) کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں کرے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے «فرع» کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ” «فرع» حق ہے اور یہ کہ تم اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اونٹ جوان ہو جائے، ایک برس کا یا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2842]
فوائد ومسائل: 1۔ نام ہمیشہ ایسے ہونے چاہیں۔ جن میں ظاہری اور معنوی حسن ہو۔ اور لفظ عقیقہ بھی پسندیدہ نہیں، اگرچہ زبان زد عام ہے۔ اس لئے کہ اس کا مادہ عقوق ہے۔ جس کے معنی نافرمانی کے ہیں۔ تاہم اشتراک مادہ کے باوجود بہت سے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف معانی میں استعمال میں ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے لفظ عقیقہ میں ایک گونہ معنوی کراہت ضرور پائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس کے استعمال سے روکا نہیں گیا۔ اس لئے اس کا استعمال بھی صحیح ہے۔
2۔ فرع۔ ابتدائے اسلام میں اس پر عمل کی کیا جاتا تھا۔ مگر بعد میں مستحب قرار دیا گیا، جیسے کہ پیچھے گزرا ہے۔
3۔ صدقہ دینے میں لوگوں کو کھلانے کے علاوہ اور بھی کئی بہتر انداز ہیں۔ جو صاحب صدقہ کے لئے زیادہ اجر کا باعث ہیں۔
4۔ جانوروں کے نوزائیدہ بچوں کو ذبح کرنا کسی طرح پسندیدہ نہیں۔ اس سے ماں کو بے قراری ہوتی ہے۔ اور دودھ بھی کم ہو جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2842