سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: قربانی کے مسائل
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
21. باب فِي الْعَقِيقَةِ
21. باب: عقیقہ کا بیان۔
Chapter: The ’Aqiqah.
حدیث نمبر: 2842
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا القعنبي، حدثنا داود بن قيس، عن عمرو بن شعيب، ان النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا محمد بن سليمان الانباري،حدثنا عبد الملك يعني ابن عمرو، عن داود، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه اراه، عن جده قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة فقال:" لا يحب الله العقوق"، كانه كره الاسم وقال: من ولد له ولد فاحب ان ينسك عنه فلينسك عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة، وسئل عن الفرع قال: والفرع حق وان تتركوه حتى يكون بكرا شغزبا ابن مخاض، او ابن لبون فتعطيه ارملة او تحمل عليه في سبيل الله خير من ان تذبحه فيلزق لحمه بوبره، وتكفئ إناءك وتوله ناقتك.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ أُرَاهُ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ فَقَالَ:" لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْعُقُوقَ"، كَأَنَّهُ كَرِهَ الِاسْمَ وَقَالَ: مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْهُ فَلْيَنْسُكْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ، وَسُئِلَ عَنِ الْفَرَعِ قَالَ: وَالْفَرَعُ حَقٌّ وَأَنْ تَتْرُكُوهُ حَتَّى يَكُونَ بَكْرًا شُغْزُبًّا ابْنَ مَخَاضٍ، أَوِ ابْنَ لَبُونٍ فَتُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً أَوْ تَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذْبَحَهُ فَيَلْزَقَ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ، وَتَكْفِئَ إِنَاءَكَ وَتُوّلِهُ نَاقَتَكَ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ «عقوق» (ماں باپ کی نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو ناپسند فرمایا، اور مکروہ جانا، اور فرمایا: جس کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنے بچے کی طرف سے قربانی (عقیقہ) کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں کرے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے «فرع» کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: «فرع» حق ہے اور یہ کہ تم اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اونٹ جوان ہو جائے، ایک برس کا یا دو برس کا، پھر اس کو بیواؤں محتاجوں کو دے دو، یا اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے دے دو، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو (پیدا ہوتے ہی) کاٹ ڈالو کہ گوشت اس کا بالوں سے چپکا ہو (یعنی کم ہو) اور تم اپنا برتن اوندھا رکھو، (گوشت نہ ہو گا تو پکاؤ گے کہاں سے) اور اپنی اونٹنی کو بچے کی جدائی کا غم دو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/العقیقة 1 (4217)، (تحفة الأشراف: 19169، 8700)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/182، 183، 194) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Amr bin Suhaib: On his father's authority, said that his grandfather that the Messenger of Allah ﷺ was asked about the aqiqah. He replied: Allah does not like the breaking of ties (uquq), as though he disliked the name. And he said: If anyone has a child born to him and wishes to offer a sacrifice on its behalf, he may offer two resembling sheep for a boy and one for a girl. And he was asked about Fara. He replied: Fara is right. If you leave it (i. e. let it grow till it becomes a healthy camel of one year or two years, then you give it to a widow or give it in the path of Allah for using it as a riding beast, it is better than slaughtering it at the age when its meat is stuck to its hair, and you turn over your milking vessel and annoy your she-camel.
USC-MSA web (English) Reference: Book 15 , Number 2836


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (4156)

   سنن أبي داود2842عبد الله بن عمروشاتان مكافئتان عن الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرى4217عبد الله بن عمروشاتان مكافأتان عن الجارية شاة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2842 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2842  
فوائد ومسائل:

نام ہمیشہ ایسے ہونے چاہیں۔
جن میں ظاہری اور معنوی حسن ہو۔
اور لفظ عقیقہ بھی پسندیدہ نہیں، اگرچہ زبان زد عام ہے۔
اس لئے کہ اس کا مادہ عقوق ہے۔
جس کے معنی نافرمانی کے ہیں۔
تاہم اشتراک مادہ کے باوجود بہت سے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف معانی میں استعمال میں ہوتے ہیں۔
اس اعتبار سے لفظ عقیقہ میں ایک گونہ معنوی کراہت ضرور پائی جاتی ہے۔
اس کے باوجود اس کے استعمال سے روکا نہیں گیا۔
اس لئے اس کا استعمال بھی صحیح ہے۔


فرع۔
ابتدائے اسلام میں اس پر عمل کی کیا جاتا تھا۔
مگر بعد میں مستحب قرار دیا گیا، جیسے کہ پیچھے گزرا ہے۔


صدقہ دینے میں لوگوں کو کھلانے کے علاوہ اور بھی کئی بہتر انداز ہیں۔
جو صاحب صدقہ کے لئے زیادہ اجر کا باعث ہیں۔


جانوروں کے نوزائیدہ بچوں کو ذبح کرنا کسی طرح پسندیدہ نہیں۔
اس سے ماں کو بے قراری ہوتی ہے۔
اور دودھ بھی کم ہو جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2842   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4217  
´نومولود کی طرف سے عقیقہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا۔‏‏‏‏ گویا کہ آپ کو یہ نام ناپسند تھا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ہم تو آپ سے صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب ایک شخص کے یہاں اولاد پیدا ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے ۱؎ کرے، لڑکے کی طرف سے ایک ہی عمر کی دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب العقيقة/حدیث: 4217]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے عقیقے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ شریعت مطہرہ نے لڑکے اور لڑکی کے عقیقے میں یہ فرق کیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دو بکریاں جبکہ لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی، تاہم اگر استطاعت نہ ہو تو لڑکے کی طرف سے بھی ایک بکری کفایت کر جائے گی۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے عقیقہ میں ایک جانور ذبح کرنا متفقہ مسئلہ ہے اور اس میں کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ وراثت میں بھی تو لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں فرق ہے۔ ویسے بھی عموماً لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوشی مناتے ہیں، لہٰذا اس کا شکرانہ بھی زیادہ ہی ہونا چاہیے۔
(2) ناپسند فرماتا ہے یعنی لفظ عقوق کو، جیسا کہ راوی نے وضاحت کی ہے۔ عقوق کے معنیٰ نافرمانی کے ہیں۔ یہ لفظ اچھا نہیں، لہٰذا بہتر ہے کہ بجائے عقیقہ کے نسیکۃ (اللہ تعالیٰ کے راستے میں ذبح ہونے والا جانور) کہا جائے لیکن یہ بھی ضروری نہیں۔ بعض احادیث میں صراحتاً لفظ عقیقہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں لے سکتے کہ اللہ تعالیٰ فعل عقیقہ کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ آئندہ الفاظ میں تو آپ خود عقیقے کی سنیت ذکر فرما رہے ہیں۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عقیقہ نہ کرنے کو ناپسند فرماتا ہے کیونکہ عقوق کے معنیٰ قطع رحم کے بھی ہیں، جیسے کہ نافرمان اولاد کو عاق کہا جاتا ہے۔ جو والد اپنے بچے کا عقیقہ نہ کرے، گویا اس نے اس رشتے کا حق ادا نہیں کیا، لہٰذا اسے بھی عاق کہا جائے گا کیونکہ اس نے عقوق کیا۔ لیکن یہ معنیٰ ذرا پیچیدہ ہیں۔
(3) ذبح کرنا چاہے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کرنا ضروری نہیں۔ لیکن دوسری روایات کو ساتھ ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ سنت ہے اور سنت کو بلاوجہ چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔
(4) دو پوری بکریاں یعنی عمر میں بھی پوری ہوں اور اوصاف میں بھی۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقے کا جانور کم از کم قربانی کے جانور کی طرح ہو اور اس میں کوئی عیب نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ پورا نہیں ہو گا۔ اس لفظ کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: دو بکریاں جو قربانی کے جانور کے برابر ہوں۔ تیسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ایک جیسی دو بکریاں۔ تینوں ترجمے صحیح ہیں۔
 (5) عقیقہ میں بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ برابر ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4217   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.