سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
The Book of al-Bay'ah
32. بَابُ : بِطَانَةِ الإِمَامِ
32. باب: امام اور حاکم کے راز دار اور مشیر کا بیان۔
Chapter: The Inner Circle Of The Imam
حدیث نمبر: 4206
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن يحيى بن عبد الله، قال: حدثنا معمر بن يعمر، قال: حدثني معاوية بن سلام، قال: حدثني الزهري، قال: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من وال، إلا وله بطانتان، بطانة تامره بالمعروف، وتنهاه عن المنكر، وبطانة لا تالوه خبالا، فمن وقي شرها فقد وقي، وهو من التي تغلب عليه منهما".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ يَعْمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ وَالٍ، إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، فَمَنْ وُقِيَ شَرَّهَا فَقَدْ وُقِيَ، وَهُوَ مِنَ الَّتِي تَغْلِبُ عَلَيْهِ مِنْهُمَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا کوئی حاکم نہیں جس کے دو قسم کے مشیر نہ ہوں، ایک مشیر اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ لہٰذا جو اس کے شر سے بچا وہ بچ گیا اور ان دونوں مشیروں میں سے جو اس پر غالب آ جاتا ہے وہ اسی میں سے ہو جاتا ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: اس لیے ہر صاحب اختیار (خواہ حاکم اعلی ہو یا ادنیٰ جیسے گورنر، تھانے دار یا کسی تنظیم کا سربراہ) اسے چاہیئے کہ اپنا مشیر بہت چھان پھٹک کر اختیار کرے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے کہ اے اللہ! مجھے صالح مشیر کار عطا فرما۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأحکام 42 (7198 تعلیقًا)، (تحفة الأشراف: 15269)، مسند احمد (2/237، 289) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   جامع الترمذي2369عبد الرحمن بن صخرالله لم يبعث نبيا ولا خليفة إلا وله بطانتان بطانة تأمره بالمعروف وتنهاه عن المنكر وبطانة لا تألوه خبالا ومن يوق بطانة السوء فقد وقي
   المعجم الصغير للطبراني996عبد الرحمن بن صخرما من نبي ولا أمير إلا له بطانتان بطانة تأمره بالمعروف والخير وتدله عليه وبطانة لا تألوه خبالا فمن وقي بطانة الخبال فقد وقي
   سنن النسائى الصغرى4206عبد الرحمن بن صخرما من وال إلا وله بطانتان بطانة تأمره بالمعروف وتنهاه عن المنكر وبطانة لا تألوه خبالا فمن وقي شرها فقد وقي وهو من التي تغلب عليه منهما

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4206 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4206  
اردو حاشہ:
معلوم ہوا کہ امیر یا حاکم کی کامیابی اور ناکامی اس کے مشیروں پر موقوف ہے۔ اگر مشیر اچھے ہوں گے تو حاکم اچھا رہے گا۔ او اگر مشیر برے ہوں گے تو حاکم بھی برا ہو گا، خواہ بذات خود اچھا ہو۔ یہی مطلب ہے آخری جملے کا کہ حاکم پر جس قسم کی مشیروں کا غلبہ ہو، حاکم کو اسی قسم میں شمار کیا جائے گا۔ اس کی اپنی ذات کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا۔ تجربہ بھی اس بات کا شاہد ہے کہ بعض برے حاکموں کو اچھے مشیروں کی وجہ سے نیک نامی حاصل ہو گئی، جیسے سلیمان بن عبدالملک کے ہاتھوں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی نامزدگی ایک اچھے مشیر کا کارنامہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4206   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2369  
´صحابہ کرام رضی الله عنہم کی معاشی زندگی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر رضی الله عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر رضی الله عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: مجھے بھی کچھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کتاب الزہد اور اس باب سے اس حدیث کی مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے،
مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے اور بھوک سے دو چار ہوتے تھے۔
2؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ اورآپ کے جاں نثارصحابہ کس قدرتنگ دستی کی زندگی گزاررہے تھے،
ایسے احباب کے پاس طلب ضیافت کے لیے جاناجائزہے جن کی بابت علم ہو کہ وہ اس سے خوش ہوں گے،
اس حدیث میں مہمان کی عزت افزائی اور اس کی آمد پر اللہ کا شکرادا کرنے کی ترغیب ہے،
اسی طرح گھر پرشوہرکی عدم موجودگی میں اگرکسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو عورت اپنے شوہرکے مہمانوں کا استقبال کرسکتی،
اور انہیں خوش آمدید کہہ سکتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2369   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.