ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا کوئی حاکم نہیں جس کے دو قسم کے مشیر نہ ہوں، ایک مشیر اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ لہٰذا جو اس کے شر سے بچا وہ بچ گیا اور ان دونوں مشیروں میں سے جو اس پر غالب آ جاتا ہے وہ اسی میں سے ہو جاتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لیے ہر صاحب اختیار (خواہ حاکم اعلی ہو یا ادنیٰ جیسے گورنر، تھانے دار یا کسی تنظیم کا سربراہ) اسے چاہیئے کہ اپنا مشیر بہت چھان پھٹک کر اختیار کرے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے کہ اے اللہ! مجھے صالح مشیر کار عطا فرما۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4206
اردو حاشہ: معلوم ہوا کہ امیر یا حاکم کی کامیابی اور ناکامی اس کے مشیروں پر موقوف ہے۔ اگر مشیر اچھے ہوں گے تو حاکم اچھا رہے گا۔ او اگر مشیر برے ہوں گے تو حاکم بھی برا ہو گا، خواہ بذات خود اچھا ہو۔ یہی مطلب ہے آخری جملے کا کہ حاکم پر جس قسم کی مشیروں کا غلبہ ہو، حاکم کو اسی قسم میں شمار کیا جائے گا۔ اس کی اپنی ذات کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا۔ تجربہ بھی اس بات کا شاہد ہے کہ بعض برے حاکموں کو اچھے مشیروں کی وجہ سے نیک نامی حاصل ہو گئی، جیسے سلیمان بن عبدالملک کے ہاتھوں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی نامزدگی ایک اچھے مشیر کا کارنامہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4206
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2369
´صحابہ کرام رضی الله عنہم کی معاشی زندگی کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر رضی الله عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر رضی الله عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: ”مجھے بھی کچھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2369]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: کتاب الزہد اور اس باب سے اس حدیث کی مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے اور بھوک سے دو چار ہوتے تھے۔ 2؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ اورآپ کے جاں نثارصحابہ کس قدرتنگ دستی کی زندگی گزاررہے تھے، ایسے احباب کے پاس طلب ضیافت کے لیے جاناجائزہے جن کی بابت علم ہو کہ وہ اس سے خوش ہوں گے، اس حدیث میں مہمان کی عزت افزائی اور اس کی آمد پر اللہ کا شکرادا کرنے کی ترغیب ہے، اسی طرح گھر پرشوہرکی عدم موجودگی میں اگرکسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو عورت اپنے شوہرکے مہمانوں کا استقبال کرسکتی، اور انہیں خوش آمدید کہہ سکتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2369