(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن يحيى بن حصين، قال: سمعت جدتي، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول في حجة الوداع:" ولو استعمل عليكم عبد حبشي يقودكم بكتاب الله، فاسمعوا له واطيعوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدَّتِي، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا".
یحییٰ بن حصین کی دادی (ام الحصٰن الاحمسیۃ رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے ہوئے سنا: اگر کوئی حبشی غلام بھی تم پر امیر بنا دیا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق چلائے تو تم اس کی سنو اور اطاعت کرو۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4197
اردو حاشہ: (1) چونکہ عام طورپر معاشرے میں غلام کو کم تر خیال کیا جاتا ہے، اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے مبالغے کی حد تک تاکیدی حکم فرمایا کہ خلیفۃ المسلمین کسی غلام اور وہ بھی حبشی غلام جو کہ عموما پرکشش اور جاذب نظر نہیں ہوتا، کو ماتحت امیر وامام مقرر کردے تو اس کی اطاعت و فرماں برداری بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح کہ ایک آزاد مرد کی۔اس اطاعت میں حریت وعبدیت کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام وامیر بننے کے لیے حریت اور آزادی شرط نہیں ہے کہ صرف آزاد شخص ہی امام اور امیر بن سکے۔ آقا و مولا کی اجازت سے غلام بھی امام وامیر بن سکتا ہے۔ اس صورت میں غلام، صرف غلام ہی نہیں بلکہ امام برحق بھی ہوگا، لہٰذا اس کی اطاعت بھی واجب ہوگی۔ (3) یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ کوئی بھی امام و امیر یا خلیفۃ المسلمین صرف اس صورت میں واجب الطاعۃ ہے جب تک وہ کتاب وسنت کے مطابق احکام دے، لوگوں کو شریعت اسلامیہ کے مطابق چلائے اور خود بھی پابند شریعت بن کررہے، ہاں! اگر کوئی امیر کتاب وسنت کے مخالف محض اپنی خواہش نفس کی اطاعت کرانا چاہے تو اس صورت میں وہ قطعاََ اطاعت کا حق دار نہیں کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: [لا طاعةَ لِمخلوقٍ في معصيةِ اللَّهِ إنَّما الطّاعةُ في المعروفِ ](مسند أحمد:94/1) (4) نیز اس حدیث مبارکہ سے تقلید شخصی کا مکمل طور پر رد ہوتا ہے۔ غیر مشروط اطاعت صرف اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا حق ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دیا جا سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4197
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1706
´امام کی اطاعت کرنے کا بیان۔` ام حصین احمسیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ کے جسم پر ایک چادر تھی جسے اپنی بغل کے نیچے سے لپیٹے ہوئے تھے، (گویا میں) آپ کے بازو کا پھڑکتا ہوا گوشت دیکھ رہی ہوں، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگو! اللہ سے ڈرو، اور اگر کان کٹا ہوا حبشی غلام بھی تمہارا حاکم بنا دیا جائے تو اس کی بات مانو اور اس کی اطاعت کرو، جب تک وہ تمہارے لیے کتاب اللہ کو قائم کرے“(یعنی کتاب اللہ کے موافق حکم دے)۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1706]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں امیر کی اطاعت اور اس کی ماتحتی میں رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے، اور ہرایسے عمل سے دوررہنے کاحکم دیا جا رہا ہے جس سے فتنہ کے سر اٹھانے اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں انتشار پید ہونے کا اندیشہ ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1706
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3138
حضرت ام الحصین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے حجۃ الوداع آپ کے ساتھ کیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور واپس پلٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تھے، حضرت بلال اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ان میں سے ایک آپ کی سواری آ گے سے پکڑ کر چل رہا تھا، اور دوسرا دھوپ سے بچانے کے لیے اپنا کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر بلند کیے ہوئے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3138]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ حج میں گرمی سے بچنے کے لیے چھتری استعمال کرنا، یا سایہ بان کے نیچے بیٹھنا درست ہے۔ احرام کی حالت میں سر پر کپڑا وغیرہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ 2۔ اگرحاکم اعلیٰ کی طرف سے کسی ایسے انسان کو کسی علاقہ یا محکمہ کا سربراہ بنا دیا جائے جو دنیوی اعتبار سے کسی بلند وبالا خاندان کا نہ ہو یا شخصی وجاہت اور حسن وجمال سے محروم ہو لیکن کام قرآن وسنت کی روشنی میں کرتا ہو تو اس کی اطاعت وفرمانبرداری فرض ہے، اس کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے احکام اور اعمال دین کے منافی ہیں تو پھر اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔