(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابو إسحاق، عن عمرو بن غالب، قال: قالت عائشة: اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل دم امرئ مسلم إلا رجل زنى بعد إحصانه، او كفر بعد إسلامه، او النفس بالنفس". وقفه زهير. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوِ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ". وَقَّفَهُ زُهَيْرٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے اس شخص کے جس نے شادی کے بعد زنا کیا یا اسلام لانے کے بعد کفر کیا یا جان کے بدلے جان لینا ہو“۔ اسے زہیر نے موقوفاً روایت کیا ہے (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17422)، مسند احمد (6/58، 181، 205، 214)، ویأتي عند المؤلف برقم 4023 (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله إلا بإحدى ثلاث رجل زنى بعد إحصان فإنه يرجم رجل خرج محاربا لله ورسوله فإنه يقتل أو يصلب أو ينفى من الأرض يقتل نفسا فيقتل بها
لا يحل قتل مسلم إلا بإحدى ثلاث خصال : زان محصن فيرجم ورجل يقتل مسلما متعمدا فيقتل ورجل يخرج من الإسلام فيحارب الله ورسوله فيقتل أو يصلب أو ينفى من الأرض
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4053
´سولی دینے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں: ایک تو شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا، دوسرے وہ شخص جس نے کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کیا تو اسے قتل کیا جائے گا، تیسرے وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہوئے اسلام سے مرتد ہو جائے، تو اسے سولی دی جائے گی، یا جلا وطن کر دیا جائے گا۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4053]
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے۔ (2) معلوم ہوا ڈاکو، باغی اور مرتد کے سلسلے میں حاکم کو مندرجہ بالا سزاؤں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے، یعنی وہ جرم کی مناسبت سے سزا کم و بیش کر سکتا ہے۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4053
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4747
´کافر کے بدلے مسلمان کے قتل نہ کیے جانے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے مگر جب تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہو ۱؎: شادی شدہ ہو کر زنا کرے تو اسے رجم کیا جائے گا، کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے، کوئی اسلام سے نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ جنگ بناتا پھرے، تو اسے قتل کیا جائے گا، یا سولی پر چڑھایا جائے گا، یا پھر جلا وطن کیا جائے گا۔“[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4747]
اردو حاشہ: مصنف رحمہ اللہ کا استدلال ظاہر الفاظ سے ہے کہ ان تین جرائم کے علاوہ کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ اور ان میں دوسرا جرم کسی مسلمان کو قتل کرنے کا ہے نہ کہ کافر کو۔ اس استدلال کی تائید آئندہ احادیث سے بھی ہو رہی ہے جن میں صراحتاً فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ باقی رہا النفس بالنفس تو یہ عام نہیں کیونکہ حربی کافر کے بدلے کوئی شخص بھی مسلمان کو قتل کرنے کا قائل نہیں۔ جس طرح حربی کا فر مستثنیٰ ہے، اسی طرح ان احادیث کی بنا پر ذمی کافر بھی مستثنیٰ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل حدیث: 4738)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4747