(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: انبانا عبد الرحمن، عن سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي لا إله غيره , لا يحل دم امرئ مسلم يشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله إلا ثلاثة نفر: التارك للإسلام مفارق الجماعة، والثيب الزاني، والنفس بالنفس". قال الاعمش: فحدثت به إبراهيم فحدثني، عن الاسود، عن عائشة بمثله. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ , لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ: التَّارِكُ لِلْإِسْلَامِ مُفَارِقُ الْجَمَاعَةِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ". قَالَ الْأَعْمَشُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ إِبْرَاهِيمَ فَحَدَّثَنِي، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! کسی مسلمان کا خون جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں حلال نہیں، سوائے تین افراد کے: ایک وہ جو (مسلمانوں کی) جماعت سے الگ ہو کر اسلام کو ترک کر دے، دوسرا شادی شدہ زانی، اور تیسرا جان کے بدلے جان ۱؎۔ اعمش کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انہوں نے اس جیسی حدیث مجھ سے اسود کے واسطے سے عائشہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کی۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر کوئی دین اسلام سے مرتد ہو گیا، یا شادی شدہ ہو کر بھی زنا کر لیا، یا کسی کو ناحق قتل کیا ہے، تو اسے ان جرائم کی بنا پر اس کا خون حلال ہو گیا لیکن اس کے خون لینے کا کام اسلامی حکومت کا ہے نہ کہ سماج کا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4021
اردو حاشہ: (1) اس حدیث میں قتل کا ذکر ہے، قتال کا نہیں۔ قتل سے مراد حد کے طور پر قتل کرنا ہے اور ان تین اصولوں ہی میں جائز ہے، لیکن قتال، یعنی لڑائی تو باغیوں اور منکرین زکاۃ وغیرہ سے بھی لڑی جا سکتی ہے۔ (2)”کافر بن جائے“ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے تو اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ حد سے پہلے توبہ کر لے تو اسے معافی مل جائے گی۔ (3)”جماعت چھوڑ جائے“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ مرتد ہونے کے بعد مسلمانوں ہی میں رہے تو اسے حد نہ لگائی جائے کیونکہ یہ دراصل ارتداد کی تفسیر ہے، یعنی مرتد ہو جانا مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانا ہے۔ احناف کے نزدیک مرتد عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے قید کیا جائے گا لیکن یہ صریح روایات کے خلاف ہے۔ (4) قاتل، خواہ آزاد آدمی ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا، البتہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے قتل کرنے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل حدیث: 4838 کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (5)”اس جیسی روایت“ ابراہیم نخعی کے پاس یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی جبکہ اعمش کے پاس عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔ اعمش نے ابراہیم نخعی کو عبداللہ بن مسعود کی روایت سنائی تو ابراہیم نے انہیں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنائی۔ گویا دونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4021