عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ(فتح) خیبر کے سال زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت میں) چار حصے لگائے۔ ایک حصہ ان کا اپنا اور ایک حصہ قرابت داری کا لحاظ کر کے کیونکہ صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی ماں تھیں اور دو حصے گھوڑے کے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3623
اردو حاشہ: (1) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پھوپھی زد بھائی تھے۔ شریعت اسلامیہ نے رسول اللہ ﷺ کے رشتے داروں کے لیے خمس میں حق رکھا تھا تاکہ یہ ان کے لیے زکاۃ کا نعم البدل بن سکے‘ نیز آپ اپنے رشتہ داروں کو تحفے تحائف دے سکیں۔ یہ خمس (پانچواں حصہ) ہر غنیمت سے الگ نکال کر بیت المال میں رکھا جاتا تھا جسے آپ اپنی صوابدید کے مطابق اپنی ذات اقدس‘ اپنے رشتے داروں اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کی جنگی قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال فرماتے تھے۔ﷺ۔ (2) جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑے کو مال غنیمت میں سے دو حصے ملیں گے۔ آدمی کو ایک۔ گویا گھوڑ سوار کو تین حصے اور پیدل کو ایک حصہ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں گھوڑے کو انسان پر فضیلت نہیں دے سکتا‘ لہٰذا وہ گھوڑے کے لیے ایک حصے کے قائل ہیں‘ حالانکہ اس میں فضیلت کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی گھوڑا انسان سے زیادہ کھاتا ہے تو کیا زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ افضل ہوگیا؟ گھوڑے کو دوحصے دینا اسی بنا پر ہے کہ اس پر خرچ زیادہ اٹھتا ہے‘ نیز وہ جنگ میں آدمی سے زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک سوار پیدل سے کئی گنا زیادہ مفید ہے اور یہ فرق صرف گھوڑے کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا انصاف یہی ہے کہ اس کا حصہ آدمی سے زیادہ رکھا جائے۔ احادیث اس بارے میں صریح ہیں۔ مبہم روایات پر محمول کیا جائے گا‘ نیز حدیث کے مقابلے میں رائے اور قیاس کی کوئی اہمیت نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3623