(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن يونس بن محمد حرمي هو لقبه، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت له امة يطؤها , فلم تزل به عائشة , وحفصة حتى حرمها على نفسه , فانزل الله عز وجل: يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك سورة التحريم آية 1 إلى آخر الآية". (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَرَمِيٌّ هُوَ لَقَبُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا , فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ , وَحَفْصَةُ حَتَّى حَرَّمَهَا عَلَى نَفْسِهِ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی تھی، آپ اس سے مجامعت فرماتے تھے۔ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا ایک دن آپ کے پاس بیٹھی رہیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت: «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك» إِلَى آخِرِ الآيَةِ ”اے نبی! آپ اس چیز کو اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے“۔ (التحریم: ۱) مکمل آیت نازل فرمائی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ آپ نے اپنے اوپر شہد کو حرام کر لیا تھا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ دونوں واقعے آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3411
اردو حاشہ: (1) سابقہ حدیث میں اس آیت کا سبب نزول شہد والے واقعے کو قراردیا گیا ہے اور اس حدیث میں لونڈی کو۔ ممکن ہے دونوں واقعات قریب ہوں‘ لہٰذا دونوں کو سبب نزول سمجھا جاسکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ باقی جزئیات بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔ دونوں واقعات میں حضرت عائشہؓ کا ذکر ہے۔ دونوں کا سبب غیرت ہے۔ دونوں میں آپ نے راز میں فرمایا تھا کہ میں دوبارہ استعمال نہ کروں گا لیکن کسی کو نہ بتانا‘ دونوں میں افشائے راز ہوا جیسا کی تفصیلی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ بہت سے محققین نے شہد والے کو ترجیح دی ہے۔ (2) لونڈی کے لیے باری مقرر نہیں ہوتی۔ دل جوئی کے لیے قسم کھائی کہ اب یہ لونڈی مجھ پر حرام ہے۔ اسی طرح کی تفصیل فتح الباری‘ تفسیر سورۂ تحریم اور کئی دوسری کتب میں بھی موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس لونڈی کو آپ نے اپنے اوپر حرام قراردیا تھا‘ وہ ماریہ قبطیہؓ تھیں جو نبیﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم کی والدہ ماجدہ تھیں۔ ہوا یوں کہ حضرت ماریہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر گئی تھیں جبکہ حضرت حفصہ اس وقت تو خود گھر میں موجود نہ تھیں لیکن رسول اللہﷺ ان کے گھر میں موجود تھے کیونکہ یہ انہی کی باری کا دن تھا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ رسول اللہﷺ حضرت ماریہؓ کے ساتھ خلوت اختیار کیے ہوئے تھے کہ سیدہ حفصہ بھی آگئیں۔ انہیں نبیﷺ کا حضرت ماریہ کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوارگزرا‘ اسی بات کو خود رسول اللہﷺ نے بھی محسوس فرمایا۔ چنانچہ نبیﷺ نے حضرت حفصہؓ کی دل جوئی کی خاطر اور انہیں راضـی کرنے کے لیے قسم کھائی کہ ماریہ آج سے مجھ پر حرام ہے اور ساتھ ہی حضرت حفصہ کو فرمایا کہ اس بات کی خبر کسی کو نہ دینا۔ لیکن انہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو اس واقعے سے آگاہ کردیا۔ چنانچہ اس بات پر انہیں توبہ کرنے کی تنبیہ کی گئی۔ سورۂ تحریم کا ایک سبب نزول یہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (تفسیر احسن البیان‘ تفسیر سورۂ تحریم) ویسے بھی لونڈی کے ساتھ صحبت کرنے پر شرعاً کوئی پابندی ہے اور نہ اخلاقاً ہی یہ کوئی حرج والی یہ معیوب بات ہے‘ اس لیے نبیﷺ کا یہ فعل قطعاً قابل اعتراض نہیں ہے۔ علاوہ ازیں باری کا تعلق آزاد بیوی سے ہوتا ہے‘ اگرچہ آپ پر باری کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی لیکن پھر بھی آپ نے اپنے طور پر ازواج مطہراتf کی باریاں مقرر کررکھی تھیں۔ (3) رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہؓ کی تالیف قلب کے لیے لونڈی کو حرام کرلیا مگر یہ شرعاً درست نہ تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصلاح فرمائی…ﷺ… اور راز افشا کرنے پر دونوں ازواج مطہراتؓ کو توبہ کی تلقین فرمائی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3411