ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفتیش کر رہی تھی چنانچہ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے بالوں میں داخل کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے پاس تمہارا شیطان آ گیا ہے“۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ کا شیطان نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کیوں نہیں، اللہ کی قسم، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا میں اس سے محفوظ رہتا ہوں“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3412
اردو حاشہ: (1) رات کو گھروں میں اندھیرا ہوتا تھا۔ روشنی کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عائشہؓ کو آپ قریب محسوس نہ ہوئے تو انہوں نے ادھر ادھر ہاتھ مارنے شروع کردیے تاکہ آپ کو ٹٹولیں۔ انہیں وسوسہ ہوا کہ کہیں آپ اٹھ کر کسی اور بیوی کے گھر نہ چلے گئے ہوں۔ تبھی آپ نے شیطان کا ذکر فرمایا کیونکہ یہ وسوسہ شیطان کی طرف سے تھا۔ (2)”کیوں نہیں“ فطری طور پر ہر انسان میں گناہ کا مادہ ہوتا ہے‘ قرآن کریم میں ہے: ﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾(الشمس: 91/ 8) وہ شیطانی وساوس کی آماجگاہ ہے اور اس سے غلطی کا صدور ممکن ہے مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام اور خصوصاً خاتم النبین کو شیطانی اثرات سے مکمل طور پر محفوظ فرمادیا تھا۔ ان کے معصوم ہونے کا بھی یہی مطلب ہے۔ (3)”میں محفوظ رہتا ہوں“ بعض حضرات نے ماضی کے معنیٰ کیے ہیں ”میرا شیطان میرا مطیع ہوگیا ہے“ اس لیے وہ مجھے راہ راست سے ہٹانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3412