(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عفان، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، ان نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال بعضهم: لا اتزوج النساء، وقال بعضهم: لا آكل اللحم، وقال بعضهم: لا انام على فراش، وقال بعضهم: اصوم فلا افطر، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" ما بال اقوام يقولون كذا وكذا؟ لكني اصلي، وانام، واصوم، وافطر، واتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي، فليس مني". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بَعْضُهُمْ: لَا أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا آكُلُ اللَّحْمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا أَنَامُ عَلَى فِرَاشٍ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَصُومُ فَلَا أُفْطِرُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا؟ لَكِنِّي أُصَلِّي، وَأَنَامُ، وَأَصُومُ، وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي، فَلَيْسَ مِنِّي".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت میں سے بعض نے کہا: میں نکاح (شادی بیاہ) نہیں کروں گا، بعض نے کہا: میں گوشت نہ کھاؤں گا، بعض نے کہا: میں بستر پر نہ سوؤں گا، بعض نے کہا: میں مسلسل روزے رکھوں گا، کھاؤں پیوں گا نہیں، یہ خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے (لوگوں کے سامنے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ (مجھے دیکھو) میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادیاں بھی کرتا ہوں۔ (سن لو) جو شخص میری سنت سے اعراض کرے (میرے طریقے پر نہ چلے) سمجھ لو وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3219
اردو حاشہ: (1) حدیث کے آخری الفاظ تہدید کے طور پر ہیں‘ یعنی گویا کہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ یا اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ میرے طریق کار سے ہٹ چکا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ مسلمان نہیں کیونکہ اسلام کے بعد کسی گناہ یا معصیت کا ارتکاب انسان کو کافر نہیں بناتا۔ بہرصورت مندرجہ بالا امور سخت منع ہیں‘ خواہ کوئی شخص بھی انہیں نیکی سمجھ کر کرے۔ رسول اللہﷺ سے بڑھ کر نیک بننا حماقت ہے۔ آپ کا طریقہ ہی بہترین طریقہ ہے۔ (2) نبی اکرمﷺ کی حرص کا اندازہ کیجیے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ان اعمال وافعال کے بارے میں بھی پوچھتے تھے جو آپ گھر میں کرتے تھے تاکہ ان اعمال میں بھی وہ آپ کی پیروی کریں‘ کوئی کام اتباع سے رہ نہ جائے۔ (3) جن مسائل کا علم مردوں سے حاصل ہونا ممکن نہیں نہ ہو‘ وہ خواتین سے دریافت کیے جاسکتے ہیں۔ (4) شرعی حدود قیود میں رہ کر خواتین سے علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (5) اگر ریا کاری مقصود نہ ہو تو اپنے نیک عمل یا نیک عمل پر عزم کا اظہار کرنے میں حرج نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3219
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 145
´اس کا نام اسلام ہے` «. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَة رَهْط إِلَى بيُوت أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أخبروا كَأَنَّهُمْ تقالوها فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أحدهم أما أَنا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْل أبدا وَقَالَ آخر أَنا أَصوم الدَّهْر وَلَا أفطر وَقَالَ آخر أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مني» . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی کیفیت ان سے دریافت کریں جب ان لوگوں کو آپ کی عبادت کا حال بتایا گیا تو اس کو یہ لوگ کم اور بہت معمولی سمجھ کر آپس میں کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ہم لوگ کہاں ہو سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب قصوروں کو معاف فرما دیا ہے۔ (آپ کی معمولی عادت بھی کافی ہے) ان میں سے ایک نے کہا: میں ساری رات نماز ہی پڑھتا رہوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ دن کو روزہ ہی رکھتا رہوں گا اور کبھی روزہ نہیں توڑوں گا۔ تیسرے نے کہا: میں ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں گا کبھی بھی شادی نہیں کروں گا۔ (ان کی آپس میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے (ان کی ان باتوں کو سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ابھی ایسا ایسا کہا ہے، بہرحال میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اللہ سے تم سب سے زیادہ ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار بھی ہوں، لیکن اس کے باوجود روزہ رکھتا ہوں اور افطار کرتا ہوں“ اور نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے شادی بیاہ بھی کرتا ہوں۔ یہ سب میرا دستور و طریقہ ہے اور جو میرے ان دستور سے اعراض کرے گا وہ میرے طریقے پر نہیں ہو گا۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 145]
تخریج: [صحيح بخاري 5063]، [صحيح مسلم 3403]
فقہ الحدیث: ➊ ہمیشہ سنت پر عمل اور بدعات سے مکمل اجتناب کرنا چاہئیے۔ ➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے جان بوجھ کر منہ پھیرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کا مخالف ہے۔ ➌ دین اسلام میں رہبانیت اور کلیتاً ترک دنیا کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث قیامت تک ہر دور میں حجت ہے۔ ➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے بالکل معصوم ہونے کے باوجود کثرت سے عبادت کرتے تھے۔ ➏ بہتر سے بہتر عمل کی تلاش اور تحقیق میں مسلسل مصروف رہنا چاہئیے۔ ➐ کتاب و سنت کے خلاف ہر بات کا رد کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ ➑ اگر کوئی مسئلہ پیش آ جائے تو کوشش کر کے بڑے عالم کے پاس جا کر پوچھنا چاہئے۔ ➒ کتنا ہی بڑا عالم و زاہد ہو، اسے اجتہادی غلطی لگ سکتی ہے، لہذا دین اسلام میں تقلید کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ➓ یہ تین آدمی کون تھے؟ کسی صحیح حدیث میں اس کی وضاحت نہیں ہے۔ ◄ اس سلسلے میں فتح الباری [105، 104/9] وغیرہ میں مذکور سارے اقوال غیر ثابت ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3403
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ساتھیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے آپ کے خفیہ اعمال یا پوشیدہ عبادات کے بارے میں دریافت کیا، اس کے بعد ان میں سے ایک نے کہا، میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، اور دوسرے نے کہا، میں گوشت نہیں کھاؤں گا، تیسرے نے کہا، میں بستر پر نہیں سوؤں گا، (آپ کو پتہ چلا) تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، انہوں نے اس اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3403]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت سعید بن المسیب کی مرسل روایت سے معلوم ہوتا ہے، ازواج مطہرات سے پوچھ کر، کہ آپ کا گھر میں عمل کیا تھا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ باتیں کیں، کیونکہ انہیں اپنے اعتبار سے ازواج مطہرات کے بیان کردہ اعمال کم محسوس ہوئے اور انہوں نے خیال کیا، آپ کے اعتبار کے لحاظ سے تو یہ کافی ہیں، لیکن ہماری حیثیت ومقام کے لحاظ سے ہمیں ان سے زیادہ اعمال کی ضرورت ہے تو آپ نے غلط فہمی دور فرمائی اور ایک اصول بیان فرمایا، کہ میں تم سب سےاللہ تعالیٰ کا خوف وخشیت زیادہ رکھتا ہوں اور اللہ کے احکام وحدود کا سب سے بڑھ کر پابند ہوں، (جیساکہ بخاری شریف میں تصریح موجودہے) اس لیے تمہارے لیے میرا طرز عمل یا طریق کار اوررویہ مشعل راہ ہے تمہیں اس کی پابندی کرنی چاہیے اور جو میرا لائحہ عمل اورطریقہ کافی نہیں سمجھتا، اس کا میرے ساتھ کوئی محبت وعقیدت کا تعلق نہیں ہے اور وہ میرا ساتھی نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3403
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5063
5063. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ تین آدمی نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے تاکہ وہ نبی ﷺ کی عبادت کت متعلق معلومات حاصل کریں۔ جب انہیں (اس کی) خبر دی گئی تو انہوں نے اسے کم خیال کیا، کہنے لگے کہ ہمارا نبی ﷺ کی عبادت سے کیا مقابلہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ بخش دیے ہیں، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ رات بھی نماز پڑھتا ہوں رہوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا، اور افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے علیحدگی اختیار کروں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے آئے اور آپ نے ان سے پوچھا: ”کیا تم نے یہ باتیں کہی ہیں؟ خبردار! اللہ کی قسم! میں تمہاری نسبت اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5063]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے لانے سے محدث کی غرض نکاح کی اہمیت بتلانا ہے کہ نکاح اسلام میں سخت ضروری عمل ہے۔ ساتھ ہی اسی حدیث سے حقیقت اسلام پر بھی روشنی پڑتی ہے جس سے ادیان عالم کے مقابلہ پر اسلام کا دین فطرت ہونا ظاہر ہوتا ہے اسلام دنیا و دین ہر دو کی تعمیر چاہتا ہے وہ غلط رہبانیت اور غلط طور پر ترک دنیا کا قائل نہیں ہے۔ ایک عالمگیر آخری دین کے لئے ان ہی اوصاف کا ہونا لابدی تھا، اسی لئے اسے ناسخ ادیان قرار دے کر بنی نوع انسان کا آخری دین قرار دیا گیا، سچ ہے ﴿إن الدِینَ عِندَ اللہِ الإسلَامُ﴾(آل عمران: 19)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5063
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5063
5063. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ تین آدمی نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے تاکہ وہ نبی ﷺ کی عبادت کت متعلق معلومات حاصل کریں۔ جب انہیں (اس کی) خبر دی گئی تو انہوں نے اسے کم خیال کیا، کہنے لگے کہ ہمارا نبی ﷺ کی عبادت سے کیا مقابلہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ بخش دیے ہیں، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ رات بھی نماز پڑھتا ہوں رہوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا، اور افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے علیحدگی اختیار کروں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے آئے اور آپ نے ان سے پوچھا: ”کیا تم نے یہ باتیں کہی ہیں؟ خبردار! اللہ کی قسم! میں تمہاری نسبت اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5063]
حدیث حاشیہ: (1) اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اس میں بے جا رہبانیت اور بلا وجہ ترک دنیا کا تصور نہیں ہے کیونکہ یہ دین فطرت ہے اور عورتوں سے نکاح نہ کرنا فطرت کی خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے متعلق فرمایا: ”آپ سے پہلے ہم نے بہت سے رسول بھیجے اور انھیں ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔ “(الرعد: 38) عام طور پر جاہل لوگ خیال کرتے ہیں کہ نکاح کرنا اور بال بچوں والا ہونا تو دنیا دار قسم کے لوگوں کا کام ہے۔ لیکن ان کا یہ خیال درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں وہ بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کو پورا کرنے والے تھے۔ (2) درج بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قسم کی فکری اصلاح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے تارک دنیا ہونا ضروری نہیں بلکہ ایسا کرنا اپنی فطرت سے جنگ کرنا ہے۔ شادی نکاح کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے جو اس سے روگردانی کرتا ہے اس کا تعلق دین اسلام سے کٹ جاتا ہے۔ والله اعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5063