(مرفوع) اخبرنا يحيى بن موسى، قال: حدثنا انس بن عياض، قال: حدثنا الاوزاعي، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة، ان ابا هريرة، قال: قلت: يا رسول الله إني رجل شاب قد خشيت على نفسي العنت ولا اجد طولا اتزوج النساء، افاختصي؟ فاعرض عنه النبي صلى الله عليه وسلم، حتى قال: ثلاثا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا ابا هريرة جف القلم بما انت لاق، فاختص على ذلك او دع"، قال ابو عبد الرحمن: الاوزاعي لم يسمع هذا الحديث من الزهري وهذا حديث صحيح , قد رواه يونس، عن الزهري. (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِيَ الْعَنَتَ وَلَا أَجِدُ طَوْلًا أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، أَفَأَخْتَصِي؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى قَالَ: ثَلَاثًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا هُرَيْرَةَ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ، فَاخْتَصِ عَلَى ذَلِكَ أَوْ دَعْ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الْأَوْزَاعِيُّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ الزُّهْرِيِّ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ , قَدْ رَوَاهُ يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں جوان آدمی ہوں اور اپنے بارے میں ہلاکت میں پڑ جانے سے ڈرتا ہوں، اور عورتوں سے شادی کر لینے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا، تو کیا میں خصی ہو جاؤں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے انہوں نے اپنی یہی بات تین بار کہی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! جس سے تم کو دوچار ہونا ہے اس سے تو تم دوچار ہو کر رہو گے اسے لکھ کر قلم (بہت پہلے) خشک ہو چکا ہے، اب چاہو تو تم خصی ہو جاؤ یا نہ ہو“۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اوزاعی نے (ابن شہاب) زہری سے اس حدیث کو نہیں سنا ہے، لیکن یہ حدیث اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ اس حدیث کو یونس نے (ابن شہاب) زہری سے روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جو کچھ تمہاری قسمت میں لکھا جا چکا ہے اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہونی ہے لہٰذا تمہاری قسمت میں اگر اولاد لکھی جا چکی ہے تو ضرور ہو گی اب سوچ لو کہ خصی ہونے سے کیا فائدہ ہو گا؟
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3217
اردو حاشہ: (1) یعنی یہ روایت اوزاعی کے طریق سے منقطع ہے لیکن یونس کے واسطے سے صحیح ہے۔ (2) آپ کے فرمان کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تیرے آئندہ اعمال کا بھی علم ہے جو لامحالہ صادر ہوں گے، لہٰذا تجھے خصی جیسا حرام کام کرنے کا کیا فائدہ؟ اس سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے وسعت کی دعا کیا کر اور گناہ سے بچنے کی کوشش کر۔ نبیﷺ کے آخری الفاظ ”خصی ہویا نہ ہو۔“ اجازت کے لیے نہیں بلکہ یہ تو غصہ اور ڈانٹ ظاہر کرتے ہیں اور یہ عام محاورہ ہے۔ آپ کا اعراض فرمانا واضح دلیل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3217