(مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، قال: حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سالم بن ابي الجعد، عن شرحبيل بن السمط، قال لكعب بن مرة: يا كعب حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: سمعته يقول:" من شاب شيبة في الإسلام في سبيل الله، كانت له نورا يوم القيامة، قال له: حدثنا عن النبي صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: سمعته يقول:" ارموا، من بلغ العدو بسهم رفعه الله به درجة" , قال ابن النحام: يا رسول الله وما الدرجة؟ قال:" اما إنها ليست بعتبة امك، ولكن ما بين الدرجتين مائة عام". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، قَالَ لِكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ: يَا كَعْبُ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ لَهُ: حَدِّثْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" ارْمُوا، مَنْ بَلَغَ الْعَدُوَّ بِسَهْمٍ رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً" , قَالَ ابْنُ النَّحَّامِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الدَّرَجَةُ؟ قَالَ:" أَمَا إِنَّهَا لَيْسَتْ بِعَتَبَةِ أُمِّكَ، وَلَكِنْ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ مِائَةُ عَامٍ".
شرحبیل بن سمط سے روایت ہے کہ انہوں نے کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کعب! ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کیجئے، لیکن دیکھئیے اس میں کوئی کمی و بیشی اور فرق نہ ہونے پائے۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو مسلمان اسلام پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوا تو قیامت کے دن یہی چیز اس کے لیے نور بن جائے گی“، انہوں نے (پھر) ان سے کہا: ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (کوئی اور) حدیث بیان کیجئے، لیکن (ڈر کر اور بچ کر) بے کم و کاست (سنائیے)۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”(دشمن کو) تیر مارو، جس کا تیر دشمن کو لگ گیا تو اس کے سبب اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا“، (یہ سن کر) ابن النحام نے کہا: اللہ کے رسول! وہ درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(سن) وہ تمہاری ماں کی چوکھٹ نہیں ہے (جس کا فاصلہ بہت کم ہے) بلکہ ایک درجہ سے لے کر دوسرے درجہ کے درمیان سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/العتق 14 (3967)، سنن ابن ماجہ/العتق 4 (2522)، (تحفة الأشراف: 11163)، مسند احمد (4/235-236) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (1634) قال أبو داود: سالم لم يسمع من شرحبيل،مات شرحبيل بصفين (سنن أبى داود: 3967 طرفه الآخر) ولأصل الحديث شواهد عند مسلم (1509) والحميدي (767) وغيرهما. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 345
من شاب شيبة في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة من رمى بسهم في سبيل الله بلغ العدو أو لم يبلغ كان له كعتق رقبة من أعتق رقبة مؤمنة كانت له فداءه من النار عضوا بعضو
من شاب شيبة في الإسلام في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة ارموا من بلغ العدو بسهم رفعه الله به درجة قال ابن النحام يا رسول الله وما الدرجة قال أما إنها ليست بعتبة أمك ولكن ما بين الدرجتين مائة عام
من رمى بسهم في سبيل الله فبلغ العدو أخطأ أو أصاب كان له كعدل رقبة من أعتق رقبة مسلمة كان فداء كل عضو منه عضوا منه من نار جهنم من شاب شيبة في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3146
اردو حاشہ: 1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے اور دلائل کی رو سے یہی بات راجح اور درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایت صحیح ہے‘ نیز محقق کتاب نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس روایت کے بعض حصے کے شواہد صحیح مسلم (1509) میں ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: 26/ 212۔214‘ وصحیح سنن النسائی لألبانی: 2/ 385‘ رقم:3144)(2)”تیری ماں“ اگرچہ کسی کے منہ پر اس کی ماںکا ذکر کرنا عرف عام میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔ خصوصاً جب کہ متعلقہ شخص اسے محسوس بھی نہ کرے۔ رسول ا للہﷺ کا تعلق اپنے صحابہ سے بہت گہرا تھا۔ صحابہ کی مائیں اپنے بیٹوں کی زبانی آپ کو سلام ودعا کا پیغام بھیجتی تھیں‘ لہٰذا آپ کی زبان پر ایسا ذکر ان کے لیے خوش طبعی کا موجب تھا۔ ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق کلام کرتا ہے۔ سب پر ایک ہی حکم لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3146
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3144
´اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر اندازی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔` عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اللہ کے راستے میں (جہاد کرتے کرتے) بوڑھا ہو گیا، تو یہ چیز قیامت کے دن اس کے لیے نور بن جائے گی، اور جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر بھی چلایا خواہ دشمن کو لگا ہو یا نہ لگا ہو تو یہ چیز اس کے لیے ایک غلام آزاد کرنے کے درجہ میں ہو گی۔ اور جس نے ایک مومن غلام آزاد کیا تو یہ آزاد کرنا اس کے ہر عضو کے لیے جہنم کی آگ سے نجات د [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3144]
اردو حاشہ: 1) ”اللہ تعالیٰ کے راستے میں“ عرف کا لحاظ رکھیں تو اس سے مراد جہاد ہوگا“ یعنی جس نے سیاہ بالوں کے ساتھ جہاد شروع کیا حتیٰ کہ اس کے بال سفید ہوگئے، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس سے مراد ہر نیک کام ہو کیونکہ بہت سی احادیث میں مومن کے سفید بالوں کو اس کے لیے نور قرار دیا گیا ہے، جب کہ جہاد کی فضیلت تو سفید بالوں کی محتاج نہیں۔ وہ تو اس کے علاوہ بھی افضل عمل ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) نور، یعنی وہ بال ہی نور بن جائیں گے یا اسے اس بنا پر نور حاصل ہوگا۔ ویسے بھی سفید بالوں اور نور میں ظاہری مماثلت پائی جاتی ہے اور جزا بھی مماثل ہی ہوتی ہے۔ (3)”ہرعضو البہ اس میں مذکر مؤنث کا فرق نہیں، یعنی مذکر، مؤنث کو آزاد کرے یا مؤنث، مذکر کو، اسے یہ ثواب ملے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3144
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3147
´اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر اندازی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔` شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ اور اس میں بھول چوک اور کمی و بیشی کا شائبہ تک نہ ہو۔ تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا، دشمن کے قریب پہنچا، قطع نظر اس کے کہ تیر دشمن کو لگایا نشانہ خطا کر گیا، تو اسے ایک غلام آزاد کرنے کے ثو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3147]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر 3144۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3147
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2522
´غلام آزاد کرنے کا بیان۔` شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: کعب بن مرہ! ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کریں، اور احتیاط سے کام لیں، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو گا، اس کی ہر ہڈی اس کی ہر ہڈی کا فدیہ بنے گی، اور جو شخص دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے گا تو یہ دونوں اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بنیں گی، ان کی دو ہڈیاں اس کی ایک ہڈی کے برابر ہوں گی۔“[سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2522]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا اور مزید لکھا ہے کہ مذکورہ روایت کے بعض حصے کے شواہد صیحح مسلم (1509) میں ہیں نیز مذکورہ روایت سنن ابی داؤد میں ہے وہاں ہمارے فاضل محقق اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ سنن ابی داؤد کی حدیث (3952) اس سے کفایت کرتی ہے۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی مذکورہ کچھ نہ کچھ اصل ضرور ہے علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسےصیحح قرار دیا ہے دیکھیے: (الإرواء رقم: 1308) نیز مسند احمد کے محققین نےبھی مذکورہ روایت کے بعض حصے کو صیحح قرار دیا ہے یعنی حدیث کے آخری جملے (وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنْ النَّارِ يُجْزِئُ بِكُلِّ عَظْمَيْنِ مِنْهُمَا عَظْمٌ مِنْهُ) کے علاوہ باقی رایت کو صیحح لغیرہ قراردیا ہے لہٰذا اس ساری بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت کی کچھ اصل ضرورہے۔ مزید تفصیل دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 29/ 600، 601)
(2) حضرت شرحبیل ؓ کو رسول اللہﷺکی خدمت میں زیادہ عرصہ حاضر رہنے کا موقع نہیں ملا اس لیے انھوں نےدوسرے صحابی سے حدیث کاعلم حاصل کیا۔
(3) صحابیں صحابیت کا شرف حاصل ہونے کےباوجود علم حاصل کرنے کے لیے شوق رکھتے اور اس کے لیے محنت کرتے تھے، مسلمانوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام ؓ کی اس مبارک عادت کی پیروی کرتےہوئے دین کاعلم حاصل کرنے میں کوتائی نہ کریں۔
(4) غلام آزاد کرنا جہنم سےنجات کا باعث ہے۔
(5) لونڈی کو آزاد کرنا بھی عظیم ثواب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2522