سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
The Book of Jihad
22. بَابُ : مَنْ قَاتَلَ لِيُقَالَ فُلاَنٌ جَرِيءٌ
22. باب: بہادر کہلانے کے لیے لڑنے والے کا بیان۔
Chapter: The One Who Fights So That It Will Be Said That So-And-So Was Brave
حدیث نمبر: 3139
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابن جريج، قال: حدثنا يونس بن يوسف، عن سليمان بن يسار، قال: تفرق الناس عن ابي هريرة، فقال له قائل من اهل الشام: ايها الشيخ حدثني حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اول الناس يقضى لهم يوم القيامة ثلاثة: رجل استشهد فاتي به فعرفه نعمه، فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت، قال: كذبت ولكنك قاتلت ليقال فلان جريء، فقد قيل، ثم امر به فسحب على وجهه حتى القي في النار، ورجل تعلم العلم وعلمه، وقرا القرآن فاتي به فعرفه نعمه، فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته، وقرات فيك القرآن، قال: كذبت ولكنك تعلمت العلم، ليقال عالم، وقرات القرآن ليقال قارئ، فقد قيل، ثم امر به، فسحب على وجهه حتى القي في النار، ورجل وسع الله عليه واعطاه من اصناف المال كله، فاتي به فعرفه نعمه، فعرفها، فقال: ما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب؟ قال ابو عبد الرحمن: ولم افهم تحب كما اردت ان ينفق فيها إلا انفقت فيها لك قال: كذبت، ولكن ليقال إنه جواد فقد قيل، ثم امر به فسحب على وجهه، فالقي في النار".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ: أَيُّهَا الشَّيْخُ حَدِّثْنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَوَّلُ النَّاسِ يُقْضَى لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِيُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ، وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ، وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ، لِيُقَالَ عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ، فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ؟ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَلَمْ أَفْهَمْ تُحِبُّ كَمَا أَرَدْتُ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنْ لِيُقَالَ إِنَّهُ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، فَأُلْقِيَ فِي النَّارِ".
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (کی مجلس) سے لوگ جدا ہونے لگے، تو اہل شام میں سے ایک شخص نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: شیخ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث مجھ سے بیان کیجئے، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قیامت کے دن پہلے پہل جن لوگوں کا فیصلہ ہو گا، وہ تین (طرح کے لوگ) ہوں گے، ایک وہ ہو گا جو شہید کر دیا گیا ہو گا، اسے لا کر پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی (ان) نعمتوں کی پہچان کروائے گا (جو نعمتیں اس نے انہیں عطا کی تھیں)۔ وہ انہیں پہچان (اور تسلیم کر) لے گا۔ اللہ (اس) سے کہے گا: یہ ساری نعمتیں جو ہم نے تجھے دی تھیں ان میں تم نے کیا کیا وہ کہے گا: میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے۔ بلکہ تو اس لیے لڑاتا کہ کہا جائے کہ فلاں تو بڑا بہادر ہے چنانچہ تجھے ایسا کہا گیا ۱؎، پھر حکم دیا جائے گا: اسے لے جاؤ تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر لے جایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایک وہ ہو گا جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور قرآن پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ (اس سے) کہے گا: ان نعمتوں کا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا اور تیرے واسطے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو نے جھوٹ اور غلط کہا تو نے تو علم اس لیے سیکھا کہ تجھے عالم کہا جائے تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے چنانچہ تجھے کہا گیا۔ پھر اسے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹ کر اسے لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ ایک اور شخص ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی وسعت دی ہو گی طرح طرح کے مال و متاع دیئے ہوں گے اسے حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی عطا کردہ نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ (اس سے) کہے گا: ان کے شکریہ میں تو نے کیا کیا وہ کہے گا: اے رب! میں نے کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں تو پسند کرتا ہے کہ وہاں خرچ کیا جائے۔ مگر میں نے وہاں خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بکتا ہے، تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ تیرے متعلق کہا جائے کہ تو بڑا سخی اور فیاض آدمی ہے چنانچہ تجھے کہا گیا، اسے یہاں سے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹتا ہوا اسے لے جایا جائے گا۔ اور لے جا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں «تحب» (کا مفہوم) جیسا میں چاہتا تھا سمجھ نہ سکا لیکن جو میں نے سمجھا وہ یہ ہے کہ استاذ نے «تحب» کے آگے «أن ينفق فيها» کہا۔

وضاحت:
۱؎: یعنی تیری جرأت و بہادری کی دنیا میں بڑی تعریفیں ہوئیں اور بڑا چرچا رہا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 43 (1905)، (تحفة الأشراف: 13482)، مسند احمد (2/322، 321) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3139 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3139  
اردو حاشہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ اعمال کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں‘ نیت صحیح نہ ہو تو وہ اعمال ثواب کی بجائے الٹا عذاب کا ذریعہ بن جائیں گے‘ خواہ لوگ اس کی وقتی طور پر تعریف کریں یا نہ کریں۔ ظاہر الفاظ سے شبہ پڑتا ہے کہ لوگ تعریف کریں تب اسے عذاب ہوگا لیکن یہ مطلب صحیح نہیں۔ عذاب کا تعلق نیت کی خرابی سے ہے نہ کہ لوگوں کے تعریف کرنے سے۔ اگرصحیح نیت ہو تو لوگوں کی تعریف نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ مخلوق کی گواہی اس کی نجات اور رفع درجات کا سبب بنے گی۔ (1) ناتل یہ سائل کا نام ہے۔ ناتل بن قیس۔ (3) تونے جھوٹ بولا یعنی دعوئی اخلاص میں‘ ورنہ ظاہر ہے واقعہ تو درست ہے۔ (4) آگ میں پھینک دیا جائے گا کیونکہ دین میں ریا کاری شرک اصغر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3139   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.