فقہ الحدیث: یہ روایت
”ضعیف
“ اور
”منکر
“ ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی محمد بن عمران انصاری
”مجہول
“ ہے۔
◈ امام ابن حبان
[الثقات: 7؍411] کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
«لا يدرٰى من هو، ولا أبوه .» ”اس کا اور اس کے باپ کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال: 3؍672] ◈ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے
”مجہول
“ قرار دیا ہے۔
[تقريب التهذيب: 6198] ➋ اس کا باپ عمران انصاری بھی
”مجہول
“ ہے۔
اس کے بارے میں:
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«فلا ادري من هو .» ”میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟
“ [التمھید لما فی الموطا من المعانی والاسانید: 64/13] ◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«لا يدري من هو، تفرد عنه ابنه محمد، وحديثه فى الموطا، وهو منكر .» ”کوئی پتہ نہیں کہ کون ہے؟ اس سے صرف اس کا بیٹا محمد بیان کرتا ہے، اس کی روایت مؤطا میں ہے، جو کہ منکر ہے۔
“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال: 3؍245، ت: 6325] ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
”مقبول
“ (مجہول الحال) کا فیصلہ دیا ہے۔
[تقريب التهذيب: 5176] اسے صرف سلمہ بن قاسم نامی ایک
”ضعیف
“ شخص نے
«لا باس» کہا ہے۔
دوسری سند: مسند ابی یعلیٰ [5723] کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
«لقد سر فى ظل سرحة سبعون نبيا، لا تسرف ولا تجرد ولا تعبل»
”اس درخت کے سائے میں ستر انبیاءِ کرام کی ناف کاٹی گئی۔ اسے کیڑا نہیں لگتا، نہ اس کے پتے خشک ہوتے ہیں نہ گرتے ہیں۔“
تبصرہ: یہ سند بھی
”ضعیف
“ ہے، کیونکہ:
➊ ابومعایہ ضریر
”مدلس
“ ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
➋ سلیمان بن مہران اعمش بھی
”مدلس
“ ہیں۔
➌ عبداللہ بن ذکوان نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا زمانہ نہیں پایا۔
[المراسیل لابن أبی حاتم، ص: 111] ↰ لہذا یہ سند
”مدلس
“ اور
”منقطع
“ ہے۔
تیسری سند: اس کی ایک تیسری سند أخبار مکۃ للفاکھی [2333] میں آتی ہے،
تبصرہ: لیکن اس میں:
➊ سفیان بن عیینہ
”مدلس
“ ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
➋ محمد بن عجلان بھی
”مدلس
“ ہیں، انہوں نے بھی سماع کی تصریح نہیں کی۔
محمد بن عجلان کی متابعت معمر بن راشد نے مصنف عبدالرزاق
[20975] میں کر رکھی ہے، لیکن اس میں امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی کی
”تدلیس
“ ہے، لہٰذا یہ متابعت چنداں مفید نہیں۔
➌
”رجل مبہم
“ بھی موجود ہے۔
فائدہ: اس
”ضعیف و منکر
“ روایت میں تبرک کے حوالے سے کچھ بھی نہیں، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ پھر بھی بعض لوگ اپنے مزعومہ تبرکات کے ثبوت پر پیش کرتے ہیں۔