(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا هشيم، قال: انبانا ابو بشر، عن عبيد الله بن عبد الله بن عمر، عن ابيه , قال:" كانت تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم، لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك" , وزاد فيه ابن عمر:" لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك والرغباء إليك والعمل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ:" كَانَتْ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ" , وَزَادَ فِيهِ ابْنُ عُمَرَ:" لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یوں تھا: «لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» اور اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اتنا اضافہ کیا ہے: «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك والرغباء إليك والعمل» یعنی ”میں حاضر ہوں، تیری خدمت میں، میری سعادت ہے تیرے پاس آنے میں، بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، رغبت تیری ہی طرف ہے، اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2751
اردو حاشہ: الفاظ تلبیہ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہﷺ کے تلبیے پر اقتصار کیا جائے لیکن اگر کوئی اس میں اضافہ کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں چونکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں تلبیہ کے الفاظ میں اضافہ کیا تھا۔ جس پر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، تو ثابت ہوا کہ تلبیہ کے الفاظ میں ایسا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو اللہ کی تعظیم پر مبنی ہو، یہی قول جمہور علماء کا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 24/ 220-221)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2751
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 321
´تلبیہ کے کلمات` «. . . 221- وبه: أن تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لبيك اللهم لبيك لبيك، لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك“ قال نافع: وكان عبد الله بن عمر يزيد فيها: لبيك لبيك، لبيك وسعديك، والخير بيديك، لبيك والرغباء إليك والعمل. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ یہ لبیک کہتے تھے: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ»”اے اللہ! میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں، حمد و ثنا اور نعمت تیرے لئے ہی ہے اور ملک میں تیرا کوئی شریک نہیں۔“ نافع (تابعی) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں یہ اضافہ کرتے تھے: «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ»”حاضر ہوں، حاضر ہوں، حاضر ہوں اور خیر تیرے ہاتھ میں ہے، حاضر ہوں اور (میری) رغبت تجھی سے ہے اور (میرا) عمل تیرے ہی لئے ہی ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 321]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1549، ومسلم 1184، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ عند الضرورت اجتہاد کرنا جائز ہے بشرطیکہ نص (کتاب و سننت و اجماع) کے خلاف نہ ہو۔ ➋ ایسی دعا اور دم جس میں شرکیہ الفاظ یا مبالغہ نہ ہو، جائز ہے لیکن اسے سنت نہیں سمجھا جائے گا۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ مسنون اذکار وادعیہ کو اختیار کیا جائے۔ ➌ لوگوں نے جب لبیک میں اضافہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کے باوجود ان کا کوئی رد نہیں کیا۔ [سنن ابي داؤد: 1813، وسنده صحيح وصححه ابن خزيمه: 2626] تاہم بہتر یہی ہے کہ وہی الفاظ کہے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 221
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2918
´لبیک پکارنا۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا، آپ فرماتے تھے: «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»”حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ثنا، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، تیرا (ان میں) کوئی شریک نہیں۔“ راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں یہ اضافہ کرتے: «لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں، اے اللہ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2918]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) تلبیہ حج کے عظیم مظاہرے میں سے ہے جس سے اللہ کی محبت اس کی لگن اور اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے، (2) نماز کے بعد سواری پر سوار ہوتے وقت اور بلندی پر چڑھتے وقت لبیک کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔
(3) تمام مسلمانوں کا بیک وقت لبیک کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے سامنے سب برابر ہیں سب اللہ کی رضا کے طالب ہیں رنگ نسل زبان اور علاقے کے امتیازات اسلام کے عالمی تعارف کے مقابلے میں سب ہیچ ہیں۔
(4) اس میں بھی یہ سبق ہے کہ عام زندگی میں مسلمانوں کو اس طرح اتحاد واتفاق سے کام لینا چاہیے اور کسی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔
(5) تلبیہ میں توحید کا بار بار اقرار دل میں عقیدہ توحید کو پختہ کرنے کے لیے ہے۔
(6) تلبیہ کے مختلف الفاظ مروی ہیں۔ ان میں سے جو الفاظ چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی درست ہے کہ کبھی ایک روایت کے مطابق تلبیہ پڑھا جائے اور کبھی دوسری حدیث کے مطابق۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2918
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 825
´تلبیہ کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»”حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔“[سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 825]
اردو حاشہ: 1؎: جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ میں اپنی طرف سے ((ذَا الْمَعَارِج)) اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہا کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 825
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2811
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تلبیہ کہتے تھے: ”میں تیرے حضور حاضر ہوں، اے اللہ! میں تیرے حضور حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں، ساری حمد و تعریف کا حق دار تو ہی ہے اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں اور ساری کائنات پر فرماں روائی بھی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک و سہیم نہیں۔“ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اس تلبیہ میں ان کلمات کا اضافہ کرتے تھے، ”میں تیرے حضور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2811]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: لبيك اور سعديك: تکرار اور کثرت کے لیے استعمال ہوتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ تیری اطاعت وعبادت کے لیے ہر وقت تیار اور حاضر ہوں۔ فوائد ومسائل: 1۔ شارحین حدیث کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ا پنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اپنے بندوں کو حج کے لیے بلاوا دلوایا تھا تو حج کےلیے جانے والا بندہ جب احرام باندھ کر یہ تلبیہ پڑھتا ہے تو گویا وہ ابراہیم علیہ السلام کی پکار اوراللہ تعالیٰ کے بلاوے کے جواب میں عرض کرتا ہے کہ ”اے اللہ! تو نے اپنے گھر کی حاضری کے لیے اپنے خلیل سے ندا دلوائی تھی تو میں حاضر ہوں حاضر ہوں اور اس حاضری کے لیے باربار تیار ہوں۔ “2۔ جمہور کے نزدیک تلبیہ کے انہیں الفاظ پر کفایت کرنا بہتر ہے جو آپﷺ سے ثابت ہیں، اگرچہ ان پر دعائیہ اور تعظیم کے کلمات کا اضافہ جائز ہے کیونکہ آپﷺ کے سامنے کچھ کلمات کا اضافہ کیا گیا تو آپﷺ نے ان پراعتراض نہیں کیا۔ لیکن خود ان کلمات پر اضافہ نہیں فرمایا۔ 3۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ کرنا سنت وفضیلت ہے، اس کے چھوڑ دینے سے کچھ لازم نہیں آتا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ واجب ہے۔ اس کے ترک سے دم لازم آئےگا۔ بعض حضرات کے نزدیک تلبیہ واجب ہے لیکن اگر احرام کی نیت سے تکبیر وتہلیل اور تسبیح کہہ لے تو کفایت ہو جائے گی۔ امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔ اہل ظاہر اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی رو سے تلبیہ احرام کا رکن ہے۔ جس طرح تکبیر تحریمہ نماز کا رکن ہے، اس کے بغیر احرام نہیں ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2811
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2814
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ کہتے ہوئے اس حال میں سنا کہ آپﷺ کے سر کے بال (گوند وغیرہ) سے جمے ہوئے تھے، آپﷺ فرما رہے تھے، میں تیرے حضور حاضر ہوں، ”اے اللہ! میں تیرے حضور حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی ساجھی نہیں، میں حاضر ہوں، تمام تعریفات و ستائیش، سب نعمتیں اور بادشاہی تیرے ہی لیے ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں“ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات پر اضافہ نہیں فرماتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2814]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ کی اقتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر کچھ کلمات کا اضافہ کرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد، وہیں اپنی ناقہ پرسوار ہو کر جب ناقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کرسیدھی کھڑی ہوئی تلبیہ کہا گویا اس وقت سے آپﷺ محرم ہوئے، اصل حقیقت ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔