الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3528
3528. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ”کیا اس جگہ تمھارے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے؟“ انھوں نے کہا: نہیں صرف ہمارا بھانجا موجود ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا انھی میں شمارہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3528]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ کا یہ عنوان دواجزاء پر مشتمل ہے:
۔
قوم کا بھانجا انھی سے ہے۔
۔
اس سے پہلا جز ثابت ہوتا ہے۔
دوسرے جزکوثابت کرنے کے لیے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ ہیں:
”قوم کا آزاد کردہ غلام بھی انھیں سے ہے۔
“ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6761) 2۔
امام صاحب کا مقصود ذوی الارحام کی وراثت ثابت کرنا نہیں بلکہ نسب کی اہمیت بتاتا ہے کہ اس سے مرادصرف آبائی تعلق ہی نہیں بلکہ والدہ کے ناتے سے جو رشتہ ہوگا یا ولاء سے جو تعلق پیدا ہوگا وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح آبائی رشتہ قابل عزت ہے۔
انھیں کسی صورت میں پامال نہیں کرنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3528
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6762
6762. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کسی گھرانے کا بھانجا انھی میں سے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6762]
حدیث حاشیہ:
کسی قوم کا آزاد کردہ غلام انھی کی طرف منسوب ہوتا ہے، اسی طرح ان کا بھانجا بھی انھی میں شمار ہوتا ہے۔
ان میں فرق یہ ہے کہ بھانجا اپنے ماموں کا وارث ہو سکتا ہے بشرطیکہ دیگر اصحاب الفروض اور عصبات نہ ہوں لیکن قوم کا آزاد کردہ غلام وارث نہیں ہوتا، یعنی آزادی، وراثت کا سبب ایک طرف سے ہے دونوں طرف سے نہیں ہے لیکن بھانجے کی وراثت نسب کی وجہ سے ہے، اس لیے یہ نسب دونوں جانب سے وراثت کا باعث ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6762