سنن نسائي
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
96. بَابُ : ابْنِ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ
باب: لوگوں کے بھانجے کا شمار بھی انہیں ہی میں ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 2611
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، أَسَمِعْتَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ"؟ قَالَ: نَعَمْ.
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوایاس معاویہ بن قرہ سے پوچھا: کیا آپ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کا بھانجا بھی انہیں میں سے ہوتا ہے“، انہوں نے کہا: جی ہاں (میں نے سنا ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1598)، مسند احمد (3/119، 171، 222، 231، سنن الدارمی/السیر 82 (2569) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2611 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2611
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ بنو ہاشم کا بھانجا بھی زکاۃ کا مستحق نہیں کیونکہ وہ بھی بنو ہاشم میں شامل ہے۔ اسی طرح اس روایت سے بعض حضرات نے بھانجے کی وراثت پر بھی استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں وراثت کی بحث ہی نہیں۔ آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ بھانجے کا اپنے ماموؤں کے ساتھ قوی تعلق ہوتا ہے، لہٰذا اسے ان سے غیر متعلق نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ارشاد آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ نے صرف انصار کو بلایا تھا۔ آپ کو بتلایا گیا کہ آنے والوں میں ان کا بھانجا بھی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3528)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2611
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3528
´قوم کا بھانجا یا آزاد کیا ہوا غلام`
«. . . عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ، فَقَالَ:" هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ؟، قَالُوا: لَا إِلَّا ابْنُ أُخْتٍ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ . . .»
”. . . انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو خاص طور سے ایک مرتبہ بلایا، پھر ان سے پوچھا کیا تم لوگوں میں کوئی ایسا شخص بھی رہتا ہے جس کا تعلق تمہارے قبیلے سے نہ ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ صرف ہمارا ایک بھانجا ایسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھانجا بھی اسی قوم میں داخل ہوتا ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3528]
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ وَمَوْلَى الْقَوْمِ مِنْهُمْ:»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب میں مولیٰ کا ذکر فرمایا ہے، مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث پیش فرمائی اس میں مولیٰ (آزاد کردہ غلام) کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا بظاہر ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت نہیں دکھلائی دیتی، بعض نے فرمایا کہ مولیٰ کے ذکر کی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی شرط پر نہیں پائی، اس وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ دلیل کے طور پر اسے پیش نہ کر سکے، مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا یہ بات درست نہیں ہے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«لم يذكر المصنف حديث ”مولي القوم منهم“ مع ذكره فى الترجمة، فزعم بعضهم اٴنه لم يقع له حديث على شرطه فاٴشار اليه، وفيه نظر لانه قد اورده فى الفرئض من حديث انس ولفظه ”مولي القوم من اٴنفسهم“ .» [فتح الباري 411/7]
یہ بات درست نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «مولي القوم منهم» کا ذکر نہیں فرمایا، جیسا کہ بعضوں نے یہ خیال کیا کہ وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے، یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ اس حدیث کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے ”کتاب الفرائض“ میں بطریق انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ نقل فرمایا ہے «مولي القوم منهم» ”آزاد کیا ہوا غلام بھی اس قوم میں داخل ہوتا ہے۔“
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و وقع فى حديث اٴبي هريرة رضى الله عنه عند البذار مضمون الترجمة وزيادة عليها ”مولي القوم منهم“ ”وحليف القوم منهم“ ”وابن اخت القوم منهم“» [فتح الباري 461/7]
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اس طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہو، جسے بزار نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نکالا ہے، اس میں مولیٰ، حریف اور بھانجے یہ تینوں الفاظ مذکور ہیں۔“
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے بزاراور صحیح بخاری کتاب الفرائض (رقم الحدیث: 6766) کی طرف اشارہ فرما کر حدیث کے انہی الفاظ پر اکتفا فرمایا ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر: اٴن عدم ذكر البخاري هذا الحديث هنا مبني على اكتفائة بما ذكر هناك .» [لب اللباب 183/3]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 36
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3528
3528. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ”کیا اس جگہ تمھارے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے؟“ انھوں نے کہا: نہیں صرف ہمارا بھانجا موجود ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا انھی میں شمارہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3528]
حدیث حاشیہ:
انصار کے اس بچے کانام نعمان بن مقرن تھا۔
امام احمد کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔
ترجمہ باب میں مولیٰ کا ذکر ہے، لیکن امام بخاری ؒ مولیٰ (آزاد کردہ غلام)
کی کوئی حدیث نہیں لائے۔
بعض نے کہا انہوں نے مولیٰ کے باب میں کوئی حدیث اپنی شرط پر نہیں پائی ہوگی۔
حافظ نے کہا یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امام بخاری ؒنے فرائض میں یہ حدیث نکالی ہے کہ کسی قوم کا مولیٰ بھی ان ہی میں داخل ہے اور ممکن ہے کہ امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہوجس کو بزار نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نکالا ہے۔
اس میں مولیٰ اور حریف اور بھانجے تینوں مذکور ہیں۔
تیسیر میں ہے کہ حنفیہ نے اسی حدیث سے دلیل لی ہے کہ جب عصبہ اور ذوی الفروض نہ ہوں تو بھانجا ماموں کا وارث ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3528
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3528
3528. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ”کیا اس جگہ تمھارے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے؟“ انھوں نے کہا: نہیں صرف ہمارا بھانجا موجود ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا انھی میں شمارہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3528]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ کا یہ عنوان دواجزاء پر مشتمل ہے:
۔
قوم کا بھانجا انھی سے ہے۔
۔
اس سے پہلا جز ثابت ہوتا ہے۔
دوسرے جزکوثابت کرنے کے لیے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ ہیں:
”قوم کا آزاد کردہ غلام بھی انھیں سے ہے۔
“ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6761) 2۔
امام صاحب کا مقصود ذوی الارحام کی وراثت ثابت کرنا نہیں بلکہ نسب کی اہمیت بتاتا ہے کہ اس سے مرادصرف آبائی تعلق ہی نہیں بلکہ والدہ کے ناتے سے جو رشتہ ہوگا یا ولاء سے جو تعلق پیدا ہوگا وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح آبائی رشتہ قابل عزت ہے۔
انھیں کسی صورت میں پامال نہیں کرنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3528
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6762
6762. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کسی گھرانے کا بھانجا انھی میں سے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6762]
حدیث حاشیہ:
کسی قوم کا آزاد کردہ غلام انھی کی طرف منسوب ہوتا ہے، اسی طرح ان کا بھانجا بھی انھی میں شمار ہوتا ہے۔
ان میں فرق یہ ہے کہ بھانجا اپنے ماموں کا وارث ہو سکتا ہے بشرطیکہ دیگر اصحاب الفروض اور عصبات نہ ہوں لیکن قوم کا آزاد کردہ غلام وارث نہیں ہوتا، یعنی آزادی، وراثت کا سبب ایک طرف سے ہے دونوں طرف سے نہیں ہے لیکن بھانجے کی وراثت نسب کی وجہ سے ہے، اس لیے یہ نسب دونوں جانب سے وراثت کا باعث ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6762