(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا يحيى بن آدم، قال: حدثنا مفضل وهو ابن مهلهل , عن الاعمش، عن شقيق، عن مسروق، عن معاذ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , بعثه إلى اليمن وامره ان ياخذ من كل حالم دينارا او عدله معافر، ومن البقر من ثلاثين تبيعا او تبيعة، ومن كل اربعين مسنة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ وَهُوَ ابْنُ مُهَلْهَلٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ وَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ، وَمِنَ الْبَقَرِ مِنْ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر بالغ شخص سے ایک دینار (جزیہ) لیں یا اتنی قیمت کی یمنی چادریں، اور ہر تیس گائے بیل میں ایک برس کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے اور بیل میں دو برس کی ایک گائے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2452
اردو حاشہ: (1) چونکہ یمن میں اہل کتاب کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر تھی، لہٰذا ان پر جزیہ لاگو کیا گیا۔ ”جزیہ“ وہ ٹیکس ہے جو مسلمان حکومت غیر مسلم رعایا سے ان کی حفاظت اور دیگر سہولیات کے عوض وصول کرتی ہے۔ (2)”معافری کپڑا۔“ یہ ایک مخصوص کپڑا تھا جو یمن میں تیار ہوتا تھا۔ دھاری دار ہوتا تھا۔ پہننے کے لیے بہترین چادریں تھیں۔ اگر کوئی جزیہ رقم کی صورت میں نہ دے سکے تو اس کے عوض دینار کی قیمت کی کوئی اور چیز بھی دے سکتا تھا۔ (3) گایوں کی زکاۃ میں مذکر اور مؤنث برابر ہیں کیونکہ دونوں اپنی اپنی خصوصیات کی بنا پر مساوی قیمت رکھتے ہیں۔ مؤنث بچے دیتی ہے تو مذکر کھیتی باڑی کا اہم کام کرتے ہیں۔ مؤنث اس سے عاجز ہے۔ بخلاف اونٹوں اور بکریوں کے کہ ان میں مؤنث بچے اور دودھ دینے کے علاوہ کام کاج میں مذکر کے برابر ہیں، لہٰذا مؤنث قیمتی ہیں۔ (4) چالیس گایوں سے اوپر ہوں تو ان کے تیس اور چالیس کے حصے بنائے جائیں گے۔ ہر تیس میں ایک سالہ اور ہر چالیس میں دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی زکاۃ ہوگی، مثلاً: 60 میں دو ایک سالہ، 70 میں ایک دو سالہ اور ایک ایک سالہ، 80 میں دو دو سالہ، 90 میں تین ایک سالہ، 100 میں دو ایک سالہ اور ایک دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی زکاۃ ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2452
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1125
´جزیہ اور صلح کا بیان` سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ ” میں ہر بالغ سے ایک دینار بطور جزیہ وصول کروں یا پھر اس کے برابر معافری کپڑا لوں۔“ اس کی تخریج تینوں نے کی ہے، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1125»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الخراج، باب في أخذ الجزية، حديث:3038، والترمذي، الزكاة، حديث:623، والنسائي، الزكاة، حديث:2452، وابن حبان (الإ حسان):7 /195، حديث4866، والحاكم:1 /398.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جزیہ کی سالانہ مقدار کم از کم ایک دینار یا اس کے برابر کوئی اور چیز فی کس ہوگی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ جبکہ امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جزیہ صرف ایک دینار یا اس کے برابر کوئی اور چیز ہو سکتی ہے، اس سے کم وبیش جزیہ وصول نہیں کیاجاسکتا۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جزیہ صرف بالغ آزاد مرد ہی سے لیا جائے گا۔ (سبل السلام)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1125
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3038
´جزیہ لینے کا بیان۔` معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا، تو انہیں حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر قیمت کا معافری کپڑا جو یمن میں تیار ہوتا ہے جزیہ لیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3038]
فوائد ومسائل: زکواۃ، فطرانہ اور دیگر شرعی واجبات میں حسب سہولت عوض اور بدل لینا دینا جائز ہے۔ جیسا کہ یہاں جزیہ کی رقم کی بدلے کپڑا لے لینے کی رخصت دے دی گئی ہے۔ تاہم اصحاب الحدیث کی ایک جماعت اصل جنس کی ادایئگی پر اصرار کرتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3038