ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں کسی کا انتقال ہو گیا تو عورتیں اکٹھا ہوئیں (اور) میت پر رونے لگیں، تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر انہیں روکنے اور بھگانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! انہیں چھوڑ دو کیونکہ آنکھوں میں آنسو ہے، دل غم میں ڈوبا ہوا ہے، اور موت کا وقت قریب ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 53 (1587)، (تحفة الأشراف: 13475)، مسند احمد 2/110، 273، 408 (ضعیف) (اس کے راوی ’’سلمہ‘‘ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (1587) سلمة: مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده من المتقدمين. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 336
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1860
1860۔ اردو حاشیہ: فائدہ: مذکو ر کو رہ روایت سند ا ضعیف ہے لیکن حدیث میں مذکور مسئلہ دیگر صحیح شواہد کی بنا پر صحیح ہے کہ صدمے کی وجہ سے فطری طور پر جو رونا ا ٓجاتا ہے، وہ جائز ہے، وہ ممنو ع ررونے کی قسم میں نہیں ا ٓتا۔ علامہ اتیو بی نے مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے اس کے شواہد کا تذ رہ کیا ہے اور بہت ہی نفیس بحث کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (ذخيرة العقبيٰ شرح سنن النسائی: 18/314۔ 320]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1860
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1054
1054- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون کے رونے کی آواز سنی تو اسے منع کیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے ابوحفص! اسے چھوڑدو، کیونکہ مصیبت لاحق ہونے کا زمانہ قریب ہے، آنکھ رورہی ہے اور جان کو تکلیف لاحق ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1054]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت پر صرف رونا گناہ نہیں ہے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کے دل نرم ہوتے ہیں، اور اگر وہ صرف رو رہی ہوں اور واویلا نہ کریں تو ان کو روکنا نہیں چاہیے، ہاں اگر وہ چیخ و پکار اور حرام امور کا ارتکاب کریں تو ان کو روک دینا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1053