فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1485
´سورج گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔`
ثعلبہ بن عباد العبدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے اپنے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث ذکر کی، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے نشانہ بازی کر رہے تھے، یہاں تک کہ سورج دیکھنے والے کی نظر میں افق سے دو تین نیزے کے برابر اوپر آ چکا تھا کہ اچانک وہ سیاہ ہو گیا، ہم میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: چلو مسجد چلیں، قسم اللہ کی اس سورج کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کی امت میں ضرور کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، پھر ہم مسجد گئے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے وقت میں پایا جب آپ لوگوں کی طرف نکلے، پھر آپ آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی، تو اتنا لمبا قیام کیا کہ ایسا قیام آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے رکوع کیا تو اتنا لمبا رکوع کیا کہ ایسا رکوع آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا تو اتنا لمبا سجدہ کیا کہ ایسا سجدہ آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ایسے ہی دوسری رکعت میں بھی کیا، دوسری رکعت میں آپ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج صاف ہو گیا، تو آپ نے سلام پھیرا، اور اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، اور گواہی دی کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور گواہی دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ حدیث مختصر ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1485]
1485۔ اردو حاشیہ:
➊ ”ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے۔“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے بلند آواز سے قرأت نہیں کی بلکہ اپنے سماع کی نفی کی ہے کہ اجتماع اتنا زیادہ تھا اور ہم اتنی دور تھے کہ ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ حقیقتاً یہ الفاظ آپ کی جہر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ کی آواز تو تھی مگر ہمیں سنائی نہیں دیتی تھی۔
➋ اس روایت میں صرف ایک رکوع اور ایک سجدے کا ذکر ہے۔ دراصل یہ روایت مختصر ہے۔ مقصد رکوع اور سجدے کی طوالت کا اظہار ہے نہ کہ تعداد کا بیان۔ حقیقتاً دو رکوع تھے اور دوسجدے جیسا کہ دوسری مشہور روایات میں صراحتاً ذکر ہے، ورنہ ایک سجدے کا تو کوئی بھی قائل نہیں، نیز بعض محققین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ اس صورت میں مذکورہ بالا تطبیق کی ضرورت نہیں رہتی۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 17؍5۔ 9، وضعیف سنن النسائی، رقم: 1483، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث: 1264)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1485