(مرفوع) اخبرنا عمرو بن سواد بن الاسود بن عمرو، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني حفص بن ميسرة، عن موسى بن عقبة، عن عطاء بن ابي مروان، عن ابيه، ان كعبا حلف له بالله الذي فلق البحر لموسى إنا لنجد في التوراة، ان داود نبي الله صلى الله عليه وسلم:" كان إذا انصرف من صلاته , قال: اللهم اصلح لي ديني الذي جعلته لي عصمة , واصلح لي دنياي التي جعلت فيها معاشي , اللهم إني اعوذ برضاك من سخطك , واعوذ بعفوك من نقمتك , واعوذ بك منك , لا مانع لما اعطيت ولا معطي لما منعت , ولا ينفع ذا الجد منك الجد" قال: وحدثني كعب , ان صهيبا حدثه، ان محمدا صلى الله عليه وسلم , كان يقولهن عند انصرافه من صلاته. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَرْوَانَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ كَعْبًا حَلَفَ لَهُ بِاللَّهِ الَّذِي فَلَقَ الْبَحْرَ لِمُوسَى إِنَّا لَنَجِدُ فِي التَّوْرَاةِ، أَنَّ دَاوُدَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ , قَالَ: اللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي جَعَلْتَهُ لِي عِصْمَةً , وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي جَعَلْتَ فِيهَا مَعَاشِي , اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ , وَأَعُوذُ بِعَفْوِكَ مِنْ نِقْمَتِكَ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ , لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ , وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ" قَالَ: وَحَدَّثَنِي كَعْبٌ , أَنَّ صُهَيْبًا حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يَقُولُهُنَّ عِنْدَ انْصِرَافِهِ مِنْ صَلَاتِهِ.
ابومروان روایت کرتے ہیں کہ کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے اس اللہ کی قسم کھا کر کہا جس نے موسیٰ کے لیے سمندر پھاڑا کہ ہم لوگ تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ کے نبی داود علیہ السلام جب اپنی نماز سے سلام پھیر کر پلٹتے تو کہتی: «اللہم أصلح لي ديني الذي جعلته لي عصمة وأصلح لي دنياى التي جعلت فيها معاشي اللہم إني أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بعفوك من نقمتك وأعوذ بك منك لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد»”اے اللہ! میرے لیے میرے دین کو درست فرما دے جسے تو نے میرے لیے بچاؤ کا ذریعہ بنایا ہے، اور میرے لیے میری دنیا درست فرما دے جس میں میری روزی ہے، اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا مندی کی پناہ چاہتا ہوں، اور تیرے عذاب سے تیرے عفو و درگزر کی پناہ چاہتا ہوں، اور میں تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں، نہیں ہے کوئی روکنے والا اس کو جو تو دیدے، اور نہ ہی ہے کوئی دینے والا اسے جسے تو روک لے، اور نہ مالدار کو اس کی مالداری بچا پائے گی۔ ابومروان کہتے ہیں: اور کعب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ صہیب رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کو نماز سے سلام پھیر کر پلٹنے پر کہا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4971)، وقد أخرجہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة 53 (137) (ضعیف الإسناد)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1347
1347۔ اردو حاشیہ: ➊ یہاں ”تورات“ سے مراد وہ کتاب نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی کیونکہ وہ کتاب تو حضرت داود علیہ السلام سے بہت پہلے کی ہے۔ اس میں ان کا تذکرہ (مندرجہ بالا صورت میں) کیسے آ سکتا ہے؟ یہاں تورات سے صحف مراد ہیں جو بہت سے ان بیاء پر اترے اور ان میں ”زبور“ بھی شامل ہے جو خود حضرت داود علیہ السلام پر اتری۔ آج کل ان تمام صحف کے مجموعہ کو بائبل کہتے ہیں۔ اس میں تورات بھی آ جاتی ہے، بلکہ اس میں ان انبیاء علیہم السلام کے شاگردوں کی باتیں بھی داخل ہیں، حتیٰ کہ یہ تعین مشکل ہے کہ اس میں کون سا کلام اللہ تعالیٰ کا ہے اور کون سا انبیاء کا یا ان کے شاگردوں کا؟ یہ امتیاز صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ اللہ کی کتاب کلیتاً ممتاز ہے، کسی دوسرے کا ایک لفظ بھی اس میں شامل نہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں (اقوال و افعال) اپنی جگہ الگ ممتاز اور واضح ہیں۔ آپ کے شاگردانِ رشید کے فتاوی و بیانات بالکل الگ ہیں۔ کوئی کسی سے خلط ملط نہیں۔ والحمد للہ علی ذالك۔ ➋ اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ داود علیہ السلام کی شریعت میں بھی نماز مشروع تھی۔ ➌ ”دین“ انسان کے لیے بچاؤ کا ذریعہ ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت کی تمام مکروہات سے بچاتا ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کے سامنے آہ و زاری کرتا رہے اور اپنے دین کی درستی کے لیے دعا مانگتا رہے۔ ➍ دنیا انسان کے زندگی گزارنے کا سبب ہے اور پاکیزہ معاش انسان کو جنت میں لے جانے کا سبب ہے، اس لیے اپنی دنیا کی اصلاح کے لیے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1347