(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يعلى، قال: حدثنا قدامة، عن جسرة، قالت: حدثتني عائشة رضي الله عنها , قالت: دخلت علي امراة من اليهود , فقالت: إن عذاب القبر من البول , فقلت: كذبت , فقالت: بلى , إنا لنقرض منه الجلد والثوب , فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة وقد ارتفعت اصواتنا , فقال:" ما هذا" , فاخبرته بما قالت , فقال:" صدقت , فما صلى بعد يومئذ صلاة إلا قال: في دبر الصلاة رب جبريل وميكائيل وإسرافيل اعذني من حر النار وعذاب القبر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا قُدَامَةُ، عَنْ جَسْرَةَ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنَ الْيَهُودِ , فَقَالَتْ: إِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ مِنَ الْبَوْلِ , فَقُلْتُ: كَذَبْتِ , فَقَالَتْ: بَلَى , إِنَّا لَنَقْرِضُ مِنْهُ الْجِلْدَ وَالثَّوْبَ , فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا , فَقَالَ:" مَا هَذَا" , فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَتْ , فَقَالَ:" صَدَقَتْ , فَمَا صَلَّى بَعْدَ يَوْمِئِذٍ صَلَاةً إِلَّا قَالَ: فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ أَعِذْنِي مِنْ حَرِّ النَّارِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی: پیشاب سے نہ بچنے پر قبر میں عذاب ہوتا ہے تو میں نے کہا: تو جھوٹی ہے، تو اس نے کہا: سچ ہے ایسا ہی ہے، ہم کھال یا کپڑے کو پیشاب لگ جانے پر کاٹ ڈالتے ہیں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لائے، ہماری آواز بلند ہو گئی تھی، آپ نے پوچھا: ”کیا ماجرا ہے؟“ میں نے آپ کو جو اس نے کہا تھا بتایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سچ کہہ رہی ہے“، چنانچہ اس دن کے بعد سے آپ جو بھی نماز پڑھتے تو نماز کے بعد یہ کلمات ضرور کہتے: «رب جبريل وميكائيل وإسرافيل أعذني من حر النار وعذاب القبر»”اے جبرائیل وم یکائیل اور اسرافیل کے رب! مجھے جہنم کی آگ کی تپش، اور قبر کے عذاب سے بچا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17829)، وأخرجہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة 54 (138)، مسند احمد 6/16 (صحیح) (’’جسرة بنت دجاجہ‘‘ اور قدامہ کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، یہ لین الحدیث ہیں، لیکن صحیحین میں اس روایت کی اصل سند سے موجود ہے، دیکھئے: صحیح البخاری/الکسوف 7 (1372)، الجنائز 86 (1372)، الدعوات 237 (6366)، صحیح مسلم/المساجد 24 (584) نیز اس کو رقم (5522) کی حدیث ابوہریرہ سے بھی تقویت مل رہی ہے، بنابریں یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے۔»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1346
1346۔ اردو حاشیہ: ➊ پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا عذاب قبر کا سبب ہے۔ یہ بات دیگر روایات میں بھی بیان کی گئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا علم نہ ہو گا یا یہ واقعہ پہلے کا ہے جیسا کہ حدیث کے آخر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس کے بعد ہمیشہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے۔ ➋ ”چمڑا اور کپڑا کاٹتے تھے۔“ چمڑے سے مراد بھی پہنا ہوا چمڑا ہے جسے پیشاب لگتا تھا نہ کہ اپنے جسم کا چمڑا کیونکہ پیشاب تو نکلتا ہی جسم سے ہے اور اس کا جسم کو لگنا لازمی ہے، تبھی تو استنجا ضروری ہے۔ اگر وہاں دھونا کفایت کرتا تھا تو جسم کے دیگر حصوں کو بھی کاٹنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ہاں، ملبوس کپڑا یا چمڑا چونکہ جسم سے جدا ہے، اسے پیشاب کے قطرے لگنا انسان کی غلطی اور سستی کا نتیجہ ہے، لہٰذا انہیں کاٹنے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ بعض علماء نے اس سے جسم کا چمڑا بھی مراد لیا ہے مگر یہ درست نہیں۔ ویسے بھی یہ تکلیف مالا یطاق ہے، یعنی اس پر عمل ناممکن ہے۔ بعض روایات میں «جسد» کا لفظ بھی آیا ہے۔ لیکن یہ عاصم بن بہدلہ کا وہم ہے کہ اس نے نسخ سے جسم کا چمڑا سمجھا اور پھر اس کی جگہ لفظ «جسد»(جسم) بول دیا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ”جسد احدھم“ کو منکر کہا ہے۔ دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم الحدیث: 5](شاذ (بات) کی تاویل کی جانی چاہیے، عقلا شاذ ہو یا نقلا“ وہ غیر معتبر ہے۔ [مزید دیکھیے، حدیث: 30 کا فائدہ نمبر: 3] ➌ ”جبریلؑ میکائیلؑ، اسرافیل کے رب!“ اس قسم کے الفاظ سے مقصود رب تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہے، یعنی اتنی عظیم الشان مخلوق کو پیدا کرنے والا۔ اسی طرح آسمانوں، زمینوں کے رب برحق، مغرب کے رب وغیرہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1346