ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان دو رکعتوں میں ہوتے تھے جن میں نماز ختم ہوتی ہے، تو آپ (قعدہ میں) اپنا بایاں پاؤں (داہنی طرف) نکال دیتے، اور اپنی ایک سرین پر ٹیک لگا کر بیٹھتے پھر سلام پھیرتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس بیٹھک کو تورک کہتے ہیں، اس سے پتہ چلا کہ قعدہ اخیرہ میں اس طرح بیٹھنا سنت ہے، بعض لوگ اسے کبرسنی پر محمول کرتے ہیں لیکن اس پر محمول کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں، نیز بعض لوگوں کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ فجر کے قعدہ اخیرہ میں تورک ثابت نہیں، اس حدیث کے الفاظ سے صراحت کے ساتھ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ”قعدہ اخیرہ“ میں تورک کرتے تھے، اب خواہ یہ قعدہ اخیرہ فجر و مغرب کا ہو یا چار رکعتوں والی نمازوں کا۔
يفتح أصابع رجليه إذا سجد ثم يقول الله أكبر ويرفع ويثني رجله اليسرى فيقعد عليها ثم يصنع في الأخرى مثل ذلك فذكر الحديث قال حتى إذا كانت السجدة التي فيها التسليم أخر رجله اليسرى وقعد متوركا على شقه الأيسر
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1263
1263۔ اردو حاشیہ: اس طریقے سے بیٹھنے کو شرعی اصلاح میں تورک کہتے ہیں، یعنی پاؤں پر بیٹھنے کی بجائے براہ راست نیچے بیٹھے اور بایاں پاؤں دائیں طرف نکال لے۔ سلام والے تشہد میں تورک سنت ہے جیسا کہ اس روایت میں صراحت ہے مگر احناف اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑھاپے پر محمول کرتے ہیں لیکن اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تورک کرنے کو بڑھاپے کی حالت پر محمول کرنے والے حضرات سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا چوتھی صدی سے لے کر آج تک آپ کا کوئی بزرگ اس قدر بوڑھا نہیں ہوا کہ اسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تورک کرنا پڑے؟ اگر یہ وجہ ہوتی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہم سے زیادہ اس بات کا ادراک فرماتے۔ تعجب کی بات ہے، یہ حدیث دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت میں بیان کی گئی ہے۔ ان میں سے کسی نے یہ توجیہ نہیں کی مگر بعد والے ان کی غلطیاں نکال رہے ہیں۔ سبحان اللہ۔ البتہ اگر جماعت کی صورت میں جگہ تنگ ہو اور تورک سے دوسرے نمازیوں کو مشکل پیش آتی ہو تو نہ کرنے کی بھی گنجائش ہے لیکن عام حالات میں یہی سنت ہے۔ حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ کی روایت بہت مفصل ہے۔ کسی مبہم روایت کی وجہ سے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1263
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 963
´چوتھی رکعت میں تورک (سرین پر بیٹھنے) کا بیان۔` محمد بن عمرو کہتے کہ میں نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کی موجودگی میں سنا، اور احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کی موجودگی میں، جن میں ابوقتادہ بھی تھے، ابوحمید کو یہ کہتا سنا کہ میں تم لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: تو آپ پیش کیجئے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو پاؤں کی انگلیاں کھلی رکھتے پھر «الله أكبر» کہتے اور سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے اور اس پر بیٹھتے پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کرتے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس (آخری) سجدے سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام پھیرنا رہتا ہے تو بایاں پاؤں ایک طرف نکال لیتے اور بائیں سرین پر ٹیک لگا کر بیٹھتے۔ احمد نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے: پھر لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے سچ کہا، آپ اسی طرح نماز پڑھتے تھے، لیکن ان دونوں نے یہ نہیں ذکر کیا کہ دو رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح بیٹھے تھے؟ ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 963]
963۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں صراحت ہے کہ درمیانی تشہد اور آخری تشہد میں فرق ہوتا تھا۔ آخری تشہد جس میں سلام ہوتا ہے۔ اس میں تورک مسنون ہے۔ (یہ حدیث پیچھے بھی گزری ہے۔ حدیث 730) تورک کا مطلب بایاں پاؤں باہر نکال کر سرینوں پر بیٹھنا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 963
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 293
´تشہد میں بیٹھنے سے متعلق ایک اور باب۔` عباس بن سہل ساعدی کہتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی الله عنہم اکٹھے ہوئے، تو ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر کیا۔ اس پر ابوحمید کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے لیے بیٹھتے تو آپ اپنا بایاں پیر بچھاتے ۱؎ اور اپنے دائیں پیر کی انگلیوں کے سروں کو قبلہ کی طرف متوجہ کرتے، اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر اور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر رکھتے، اور اپنی انگلی (انگشت شہادت) سے اشارہ کرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 293]
اردو حاشہ: 1؎: افتراش والی یہ روایت مطلق ہے اس میں یہ وضاحت نہیں کہ یہ دونوں تشہد کے لیے ہے یا پہلے تشہد کے لیے، ابو حمید ساعدی کی دوسری روایت میں اس اطلاق کی تبیین موجود ہے، اس میں اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ افتراش پہلے تشہد میں ہے اور تورک آخری تشہد میں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 293