معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رکوع اور سجود میں تم مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں رکوع کرنے میں تم سے جس قدر آگے ہوں گا، میرے سر اٹھانے پر تمہاری یہ تلافی ہو جائے گی (کہ تم اتنا یہ تاخیر سے سر اٹھاؤ گے) بلاشبہ میں کسی قدر بھاری ہو گیا ہوں۔“
وضاحت: یہاں جسمانی طور پر بھاری پن کے اظہار سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب، نماز کے ارکان کی ادائیگی میں اعتدال و توازن ہے۔ یعنی میرے سر اٹھانے تک تم رکوع ہی میں رہو، یہ عوض ہو جائے گا اس مدت کا جو تم میرے بعد رکوع میں گئے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 41 (963)، (تحفة الأشراف: 11426)، وقد أخرجہ: حم(4/92، 98)، سنن الدارمی/الطھارة 72 (782) (حسن صحیح)»
Narrated Muawiyah ibn Abu Sufyan: The Prophet ﷺ said: Do not try to outstrip me in bowing and prostrating because however earlier I bow you will join me when I raise (my head from bowing); I have become bulky.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 619
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن صححه ابن حبان (الإحسان: 2226، 2227) وسنده حسن، وللحديث شواھد
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 619
619۔ اردو حاشیہ: یہاں جسمانی طور پر بھاری پن کے اظہار سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب، نماز کے ارکان کی ادائیگی میں اعتدال و توازن ہے۔ یعنی میں زیادہ تیزی سے رکوع میں جانے اور رکوع سے اٹھنے کے لیے حرکت نہیں کر سکتا، اس لیے سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے پہل نہ کرنا، بلکہ میرے بعد ہی سارے ارکان ادا کرنا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 619
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث963
´امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں جانا منع ہے۔` معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم رکوع اور سجدے میں مجھ سے سبقت نہ کرو، اگر میں رکوع تم سے پہلے کروں گا تو تم مجھ کو پا لو گے جب میں رکوع سے سر اٹھا رہا ہوں گا، اور اگر میں سجدہ میں تم سے پہلے جاؤں گا تو تم مجھ کو پا لو گے جب میں سجدہ سے سر اٹھا رہا ہوں گا، کیونکہ میرا جسم بھاری ہو گیا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 963]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب مقتدی امام کے بعد رکوع میں جائے گا۔ تو سراٹھاتے وقت بھی وہ امام سے اتنا ہی پیچھے ہوگا۔ اس طرح مقتدی کا رکوع بھی اتنا ہی طویل ہوجائے گا۔ جتنا طویل امام کا رکوع ہے۔ یہی کیفیت قومے سجدے اور جلسے کی ہے۔
(2) رکوع، سجدہ، قومہ اور جلسہ چونکہ ایسے ارکان ہیں جن میں اللہ کا ذکرکیا جاتا ہے۔ اور دعایئں اور تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔ اس لئے امام کے بعد سر اٹھانے والے کو سنت کے مطابق نماز پڑھانے والے امام سے یہ خطرہ نہیں کہ امام میرے اٹھنے تک قومے یا جلسے سے فارغ نہ ہوجائے۔ تعدیل ارکان کے ساتھ نماز پڑھنے والے امام کا مقتدی امام سے پیچھے رہنے کے باوجود اس کے ساتھ ارکان میں شامل ہوجاتا ہے۔ حدیث کا یہی مطلب ہے کہ بعد میں رکوع اور سجدہ کرنے کے باوجود تم تمام ارکان میں میرے ساتھ شامل رہو گے لہٰذا جلدی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 963