عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر کی نماز سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں نے ہمیں عصر کی نماز سے روکے رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 36 (628)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن سورة البقرة 3 (2985)، (تحفة الأشراف: 9549) وقد أخرجہ: مسند احمد (1/392، 403، 456) (صحیح)»
It was narrated that 'Abdullah said:
"The idolaters kept the Prophet from the 'Asr prayer until the sun had set. He said: 'They kept us from performing the middle prayer; may Allah fill their graves and their houses with fire.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث686
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہو کہ درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جس کی تاکید قرآن مجید میں ان الفاظ میں وارد ہے: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ ﴾(البقره: 238/2) نمازوں کی حفاظت کرواور(خاص طور پر) درمیانی نماز کی۔
(2) نماز سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا حملہ جاری رہا جس کی وجہ سے ہم لوگ جنگ میں مشغول رہے اور نماز پڑھنے کا موقع نہ ملا۔
(3) جہاد ایک عظیم عمل ہے جسے حدیث میں بجا طور پر اسلام کے کوہان کی بلندی فرمایا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی حرمة الصلوۃ، حدیث: 2612) لیکن جہاد کے اس عظیم ترین عمل میں مشغولیت بھی نماز چھوڑنے کا جواز نہیں بن سکتی۔ نماز کی اہمیت جہاد سے بھی بڑھ کر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 686
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1426
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو عصر کی نماز سے مشغول رکھا، یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انہوں نے ہمیں درمیانی نماز عصر کی نماز سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“، یا فرمایا: مَلَأَ اللهُ کی بجائے حَشَا اللہُ أَجْوَافَهُمْ، وَقُبُورَهُمْ نَارًا فرمایا۔ مَلَا اور حَشَا دونوں کا معنی بھرنا ہے، اجواف اور بطون پیٹوں کو کہتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1426]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے نماز کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شغف اور شوق کا اظہار ہوتا ہے کہ آپﷺ کو اس کے تاخیر سے پڑھنے کا اتنا رنج اور قلق ہوا کہ آپﷺ نے اس کا باعث بننے والے مشرکوں کے خلاف دعا کی حالانکہ آپﷺ نے طائف کی وادیوں میں پیغام توحید سنانے پر لہولہان کرنے، دل آزار باتیں کہنے اور غنڈوں اور اوباشوں کے آوازیں کسنے پر ان کے خلاف دعا نہیں کی تھی، اس طرح مشرکوں کے ہر قسم کے ظلم و ستم روا رکھنے پر ان کے خلاف دعا نہیں کی۔ لیکن غزوہ خندق کے موقعہ پر نماز کا وقت نکل جانے پر آپﷺ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا لیکن آج ہماری حالت کیا ہے؟ بلا وجہ اور بلا عذر نمازیں چھوڑ دیتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ (2) غزوہ خندق تک نماز خوف (جنگ کی نماز) کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے آپﷺ نے جنگ والی نماز نہیں پڑھی تھی اور ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ الصلوۃ الوسطی کےمراد نماز عصر ہے۔