عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت ہمیشہ فطرت (دین اسلام) پر رہے گی، جب تک وہ مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ تارے گھنے ہو جائیں“۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا: اس حدیث کے بارے میں اہل بغداد نے اختلاف کیا، چنانچہ میں اور ابوبکر الاعین عوام بن عباد بن عوام کے پاس گئے، تو انہوں نے اپنے والد کا اصل نسخہ نکالا تو اس میں یہ حدیث موجود تھی۔
وضاحت: ۱؎: شرح السنہ میں ہے کہ اہل علم (صحابہ اور تابعین) نے اختیار کیا ہے کہ مغرب کی نماز جلدی پڑھی جائے، اور جس حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے مغرب کی تاخیر منقول ہے وہ بیان جواز کے لئے ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5125، ومصباح الزجاجة: 257)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 6 (418) مسند احمد (4/147، 5/417، 422)، سنن الدارمی/الصلاة 17 (1246) (صحیح)»
It was narrated that 'Abbas bin 'Abdul-Muttalib said:
"The Messenger of Allah said: 'My Ummah will continue to adhere to the Fitrah so long as they do not delay the Maghrib until the stars have come out." (Hasan)Abu 'Abdullah bin Majah said: I heard Muhammed bin Yahya saying: 'The people in Baghdad were confused in narrating this Hadith. Abu Bakr Al-A'yan and I went to 'Awwam bin 'Abbad bin 'Awwam and he brought out to us the book of his father, and this Hadith was in it.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث689
اردو حاشہ: (1) نماز اول وقت پڑھنا افضل ہے خاص کرکے مغرب کی نماز میں تاخیر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس کا وقت دوسری نمازوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔
(2) نمازوں کو تاخیر سے پڑھنا بھی دین سے ایک قسم کی روگردانی ہے۔
(3) بعض زیادہ روشن ستارے ایسے بھی ہیں کہ سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہوجاتے ہیں اس لیے چند ستاروں کا نظر آ جانا تاخیر کی علامت نہیں جب تک ستارے کافی تعداد میں نہ نکل آئیں۔
(4)(تَشْتَبِكَ) کا لفظ شَبْكَة (جال) سے بنایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ستارے اس کثرت سے نظر آنے لگیں کہ آسمان پر ستاروں کا جال بچھ جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 689