ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کی ام ولد سے روایت ہے کہا انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ سے پوچھا: میرا دامن بہت لمبا ہے، اور مجھے گندی جگہ میں چلنا پڑتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ناپاک زمین کے بعد والی زمین اس دامن کو پاک کر دیتی ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یہ حال اس لٹکتے ہوئے دامن کا ہے جو ناپاک جگہوں سے رگڑتا ہے، جس کی طہارت کا حدیث میں ایک انوکھا عمدہ اور سہل طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد کی پاک جگہ کی رگڑ اسے پاک و صاف کر دے گی برخلاف ہمارے یہاں کے وسوسہ میں مبتلا لوگوں کے جنہوں نے دامنِ محمدی چھوڑ کر شیطان کے گریبان وسواس میں سر ڈالا ہے، اور ادنی سے چھینٹوں کو دھو کر کپڑوں کا ناس نکالا ہے، «نعوذ باللہ من ہذا الوسواس» ۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 140 (383)، سنن الترمذی/الطہارة 109 (143)، (تحفة الأشراف: 18296)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 4 (16)، سنن الدارمی/الطہارة 64 (769) (صحیح)» (اس سند میں ام ولد ابراہیم مجہول ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 407)
It was narrated that Umm Salamah, the wife of the Prophet, said:
"I am a woman whose hem is lengthy, and I may walk through a dirty place. The Messenger of Allah said: 'That which comes after it purifies it.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث531
اردو حاشہ: گندی جگہ سے گزرتے وقت اگر کپڑا اسے چھوجاتا ہے یا جوتے اسے لگتے ہیں تو اس کی وجہ سے وسوسے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیےاگر کوئی نجاست کپڑے یا جوتے کو جسم میں لگی ہوئی نظرنہیں آرہی تو سمجھنا چاہیے کہ وہ صاف زمین پر چلنے کی وجہ سے خود بخود پاک ہوگیا ہے۔ ہاں اگر کوئی چیز اسے لگی ہے توپھر یقیناً وہ نجس ہے اسے دھونا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 531
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 383
´دامن میں گندگی لگ جائے تو کیا کرے؟` ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کی ام ولد (حمیدہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ میں اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں (جو زمین پر گھسٹتا ہے) اور میں نجس جگہ میں بھی چلتی ہوں؟ تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اس کے بعد کی زمین (جس پر وہ گھسٹتا ہے) اس کو پاک کر دیتی ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 383]
383۔ اردو حاشیہ: ➊ اگر نجاست غلیظ کا اثر پاک مٹی سے گھسٹنے سے زائل ہو جائے تو یہ کپڑا پاک شمار ہو گا، اگر زائل نہ ہو تو دھو لیا جائے۔ ➋ خیرالقرون میں خواتین کے پردے کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے پاؤں ڈھانپنے کا بھی اہتمام کرتی تھیں، نیز انہیں طہارت کا ازحد خیال رہتا تھا کہ اس طرح کے مسائل تفصیل سے دریافت کیا کرتی تھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 383
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 143
´گندی جگہوں پر سے ننگے پاؤں گزرنے سے پاؤں دھونے کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے کہا: میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پر بھی چلنا ہوتا ہے، (تو میں کیا کروں؟) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اس کے بعد کی (پاک) زمین اسے پاک کر دیتی ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 143]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں ام ولد عبدالرحمن یا ام ولد ابراہیم بن عبدالرحمن مبہم ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 143
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 44
حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن کی ام ولد نے پوچھا اُم المؤمنین سیّدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہ میرا دامن نیچا اور لمبا رہتا ہے، اور ناپاک جگہ میں چلنے کا اتفاق ہوتا ہے، تو کہا سیّدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”پاک کرتا ہے اس کو جو بعد اس کے ہے۔“[موطا امام مالك: 44]
فائدہ:
... معلوم ہوا کہ زمین خشک ہو کر پاک ہو جاتی ہے اور جس کپڑے یا جوتے وغیرہ کو نجاست لگ جائے اُسے زمین کا خشک حصہ پاک کر دیتا ہے، یہ حدیث مبارکہ خشک اور گیلی نجاست میں فرق کی دلیل کے طور پر بھی پیش کی جاتی ہے، بہر حال امام مالک رحمہ اللہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جسم یا کپڑے پر نجاست لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، بنو عبد الاشہل کی ایک عورت نے بارش کے حوالے سے یہی مذکورہ مسئلہ پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَلَيْسَ بَعْدَهَا طرِيقٌ هِيَ أَطيبُ مِنْهَا؟» ”کیا اس (گیلی جگہ) کے بعد ایسا راستہ نہیں آتا جو اس سے زیادہ پاکیزہ ہے؟“
اُس نے کہا: کیوں نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فهذه بهذه» ”تو یہ اُس کے بدلے میں ہے۔“ [ابو داود: 384، اس كي سند صحيح هے]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الأذى فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُور» ”جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے گندگی کو روندے تو یقیناََ مٹی اُسے پاک کرنے والی ہے۔“ [ابو داود: 387 - 385، اس كي سند صحيح لغيره هے]
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَلَا نَتَوَضَّأُ مِنَ الْمَوْطِئ» ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز ادا کیا کرتے تھے اور (نجاست) روندنے کی وجہ سے (نیا) وضو نہیں کیا کرتے تھے۔“ [ترمذي: 143، ابو داؤد: 204، ابن ماجه: 1041، حاكم: 139/1، اس كي سند صحيح هے]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 44