ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگتے، پھر اٹھ کر بغیر وضو کے نماز پڑھتے۔ طنافسی کہتے ہیں: وکیع کا بیان ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد یہ تھی کہ سجدہ کی حالت میں سو جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15969)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/135) (صحیح)»
It was narrated that `A'ishah said:
"The Messenger of Allah would fall asleep until he was breathing deeply, then he would get up and offer the prayer, and he did not perform ablution." (Hasan) Tanafisi said: "Waki` said: 'She meant while he was prostrating (he would sleep).'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث474
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا جبکہ آگے آنے والی حدیث: (477) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سو جانے والے کو دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے سوجانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور لیٹ کر سوجانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹیک لگا کر سونا بھی لیٹ کر سونے کے حکم میں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ آپ ﷺ جس نیند کے بعد وضو نہیں کرتے تھے وہ بیٹھے بیٹھے ہوتی تھی یا لیٹ کر۔ اگر بیٹھے ہوئے سونا مراد ہوتو کوئی اشکال نہیں۔ اگر لیٹ کر ہو تو کہا جا سکتا ہےکہ یہ نبیﷺ کا خاصہ ہے کیونکہ آپﷺکے حواس نیند میں بھی قائم رہتے تھے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: (تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبِي) ميری آنکھ سوتی ہے اور میرا دل نہیں سوتا۔ (صحيح البخاري، المناقب، باب كان النبيﷺ تنام عینه ولاینام قلبه، حديث: 3569) امام نووی ؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں اسی عنوان سے باب باندھا ہے۔ (بابُ الدَّلَیْلِ اَنَّ نَوْمَ الْجَالِسِ لَايَنْقُضُ الْوُضُوءِ) اس بات كی دلیل کہ بیٹھ کر سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، لیکن یہ قول بھی پہلے قول سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ نماز کی ہیت میں سونا نہیں اور وضو لیٹ کر سونے سے ٹوٹتا ہے واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 474