ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اختیار دیا گیا کہ شفاعت اور آدھی امت کے جنت میں داخل ہونے میں سے ایک چیز چن لوں، تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا، کیونکہ وہ عام ہو گی اور کافی ہو گی، کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ شفاعت متقیوں کے لیے ہے؟ نہیں، بلکہ یہ ایسے گناہگاروں کے لیے ہے جو غلطی کرنے والے اور گناہوں سے آلودہ ہوں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8989، ومصباح الزجاجة: 1542) (ضعیف)» (سند میں اضطراب کی وجہ سے یہ سیاق ضعیف ہے، اول حدیث «خيرت بين الشفاعة» دوسرے طریق سے صحیح ہے لیکن «لأنها أعم الخ» ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3585 و السنة لابن أبی عاصم: 891)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4311
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) نبیﷺ اپنی امت کے انتہائی خیر خواہ تھے۔ اس لیے امت کے لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ نبیﷺ سے محبت رکھیں انکے احکام کی تعمیل کریں۔ ان کے اسوہ کی پیروی کریں ان پہ درود پڑھیں اور انکے صحابہ کرام سے محبت کریں احترام کریں۔
(2) آدھی امت کے بجائے شفاعت میں امید ہے زیادہ لوگوں کی مغفرت ہو جائے اس لیے آپﷺ نے اسے منتخیب فرمایا۔
(3) نبیﷺ کی شفاعت اللہ کے اذن کے تابع ہےاس لیے اللہ ہی سے دعا کرنی چاییے۔ کہ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جن کے حق میں شفاعت کی اجازت نبیﷺ کو حاصل ہوگی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4311