عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بلکہ عزلت اور تنہائی میں بسر کرتا ہے، یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو میل جول کو تنہائی اور گوشہ نشینی سے بہتر جانتے ہیں، بشرطیکہ میل جول کے آداب اور تقاضے کے مطابق زندگی گزارتا ہو، یعنی جمعہ، جماعت، عیدین اور جنازے میں حاضر ہو اور بیمار کی عیادت کرے اور لوگوں کو ایذا نہ دے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/صفة القیامة 55 (2507)، (تحفة الأشراف: 8565)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/43) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4032
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لوگوں سے میل جول میں اچھے برے ہر قسم کے آدمی سے واسطہ پڑتا ہے۔ برے آدمی کے برائی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے لیکن خود نیکی پر قائم رہنا چاہیے۔
(2) معاشرے میں برائی زیادہ ہو جائے تب بھی سب سے الگ تھلگ ہوکر راہبوں کی طرح جنگلوں یا غاروں میں چلے جانا جائز نہیں بلکہ معاشرے میں رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
(3) جب ایمان کو خطرہ ہو تب خلوت نشینی جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4032
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1330
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو مومن لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کی جانب سے اذیت رسانی پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے بہتر اور اچھا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور ان کی جانب سے اذیت رسانی پر صبر بھی نہیں کرتا۔“ اس حدیث کو ابن ماجہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ نیز یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے مگر اس نے صحابی رضی اللہ عنہ کا نام نہیں لیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1330»
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، الفتن، باب الصبر علي البلاء، حديث:4032، والترمذي، صفة القيامة، حديث:2507 بألفاظ مختلفة.»
تشریح: اس حدیث میں اس آدمی کو بہتر قرار دیا گیا ہے جو لوگوں میں مل جل کر رہتا ہے‘ ان سے میل جول اور ملاقات رکھتا ہے‘ دین کی تبلیغ کرتا ہے‘ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے اور تبلیغ دین کے سلسلے میں ان کی جانب سے جو تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے اسے صبر و تحمل سے برداشت کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف اسے دین کی وجہ سے دی گئی ہے‘ لہٰذا وہ اس شخص سے بدرجہا بہتر ہے جو لوگوں میں آتا جاتا نہیں‘ ان سے میل ملاقات نہیں رکھتا‘ نہ وہ دین کی تبلیغ کرتا ہے اور نہ ہی ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے‘ نہ کسی سے تعاون لیتا ہے اور نہ دیتا ہے‘ البتہ جو آدمی ایذا رسانی کو برداشت نہیں کر سکتا بلکہ اس سے اس کی اپنی دینداری کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس شخص کے لیے عزلت اور کنارہ کشی کی گنجائش ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے ”احیاء العلوم“ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1330